Home Interesting Facts مصنوعی بارش کیسے ہوتی ہے؟

مصنوعی بارش کیسے ہوتی ہے؟

by Adnan Shafiq
0 comment

 بارش قدرت کا انعام ہے، ایک تحفہ ہے اور یہ انسانی زندگی کے لئے انتہائی اہم ہے، اسمیں کوئی شک نہیں۔یقینا” آپ جانتے ہونگے کہ اب بارش مصنوعی طور پر بھی برسائی جا سکتی ہے، یہ مصنوعی بارش آخر کیسے برسائی جاتی ہے؟ کیا یہ جدید ٹیکنالوجی صحرائوں کو ہرا بھرا کر سکتی ہے؟ اور کیا قحط زدہ علاقوں کا خشک سالی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے؟ کیا اس طریقے سے بارش کو کنٹرول بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا کو کسی خاص جگہ بارش کو برسنے سے روکا بھی جا سکتا ہے؟

بارش کیسے ہوتی ہے؟

مصنوعی بارش کیسے ہوتی ہے اس کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ قدرتی طور پر بارش کے برسنے کا عمل کس طرح ہوتا ہے تا کہ ہمیں سمجھنے میں ذرا آسانی رہے۔

 یہ عمل شروع ہوتا ہے ہمارے اپنے planet پر موجود پانی سے، ہماری زمین پر موجود دریاؤں، ندی نالوں، جھیلوں سے پانی Evaporate کرتے ہوئے آبی بخارات یعنی Water Vapor بن کر ایٹماسفیر یا فضاء میں رائز(Rise) کرتا ہے۔اس عمل کو ایواپوریشن(Evaporation) کہتے ہیں۔اس کے بعد ایٹما سفئیر میں جب ان آبی بخارات یعنی واٹر ویپر(Water Vapor) کو کوئی ڈسٹ پارٹیکل، راکھ کا زرہ، بیکٹیریا یا کوئی ایسا جسم ملتا ہے جو ایٹماسفئیر میں تیر رہا ہوتا ہے تو یہ اس کے گرد جمع یا condense کرنا شروع کر دیتا ہے۔اس طرح ایک چھوٹا سا Cloud Droplet یعنی بادل جیسا چھوٹا سا قطرہ وجود میں آ جاتا ہے. وہ ڈسٹ پارٹیکل یا راکھ کا ذرہ جو اس قطرے یا Cloud Droplet کے وجود میں آنے کا باعث بنتا ہے

 Cloud Condensation Nucleai کہلاتا ہے اور اس پورے عمل سے بادل وجود میں آتے ہیں۔

 Cloud Droplet کے وجود میں آنے کے لئے ڈسٹ پارٹیکل، راکھ وغیرہ کے ذرات کا ایٹما سفئیر میں موجود ہونا لازمی ہوتا ہے، نہیں تو واٹر ویپر یعنی آبی بخارات Cloud Droplet یعنی بادل نما چھوٹے چھوٹے قطروں میں تبدیل نہیں ہوں گے۔ابتدائی طور پر Cloud Droplet  سائز میں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ  وہیں  ایٹماسفئیر میں موجود ہواؤں تیر تو رہا ہوتا ہے، لیکن اس میں برسنے کی سکت نہیں ہوتی۔ایٹما سفئیر میں موجود یہ Cloud Droplets ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے بعد سائز میں بڑے ہوتے جاتے ہیں اور باقاعدہ Rain drops یا بارش کی بڑی بوندیں بن جاتے ہیں۔اور پھر ایٹماسفیئر میں موجود ہوا کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ انھیں زیادہ دیر تک ہولڈ کر سکے یا روکے رکھے۔اس طرح یہ برسنا شروع ہو جاتے ہیں اور ہمیں بارش ہوتی ہوئی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ تو ہو گیا اس بات کا جواب کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟

مصنوعی بارش کیسے ہوتی؟

 ایٹماسفئیر میں آبی بخارات تو موجود ہوتے ہیں ہوتے لیکن انھیں بعض اوقات Cloud Condensation Nuclei یعنی وہ ڈسٹ پارٹیکل یا ذرہ نہیں ملتا جس کے گرد جمع ہو کر یہ ایک بڑے بادل میں تبدیل ہوسکیں۔لہذا سائنسدانوں نے 1946 میں ایک ایسا طریقہ کار دریافت کیا کہ جس کے ذریعے ایک کیٹالسٹ کو ایٹما سفئیر میں موجود واٹر ویپرز (Water Vapors) میں سیڈ(Seed) کیا جاتا ہے، یعنی انھیں وہ Cloud Condensation Nuclei مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ کیٹالسٹ جو عام طور پر سلور آئیوڈائید، پوٹاشیم آئیوڈائیڈ یا پھر Dry ice یعنی سالڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے، اب اس مقصد کے لئے سوڈیم کلورائیڈ کا استعمال بھی عام ہو رہا ہے۔ یہ تمام سالٹس کلاؤڈ کنڈینسیشن نیوکلئائی (Cloud Condensation Nuclei) کے طور پر کام کرتے ہے۔سیڈنگ کے اس عمل کے بعد بڑے واٹر ڈراپ لیٹس بننے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، اور بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے۔سیڈنگ(Seeding) کا یہ عمل ہوائی جہازوں، ڈرونز، راکٹس یا زمین پر موجود جنریٹرز کے زریعے کیا جاتا ہے۔

کونسے ممالک میں ہو رہی ہے؟

اس وقت دنیا میں پچاس سے زائد ممالک مصنوعی بارش برسانے کے پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں چائنہ، امریکہ، روس، بھارت، تھائی لیںڈ، فرانس، جرمنی کے علاوہ کئی اور ممالک بھی شامل ہیں. چائنہ 2016 کے بعد اس وقت دنیا کے سب سے بڑے Weather Modification پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے۔چین نے 2025 تک اپنے تقریباً 60 فیصد رقبے پر بارش پیدا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے۔چائنہ سب سے پہلے Tibetan Plateau میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں برننگ چیمبرز(Burning Chambers) انسٹال کر رہا ہے جن کی مدد سے سلور آئیوڈائیڈ produce کی جائی گے جسے ہوا کے ذریعے ایٹماسفئیر میں موجود کمزور بادلوں تک پہنچایا جائیگا۔اس بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ تقریبا 1.6 ملین یعنی سولہ لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے کو cover کرے گا جو پاکستان کے سائز سے دوگنا، جبکہ سپین جیسے ملک کا تین گنا ہے۔اس علاقے میں ابھی تک تقریبا 500 لگ بھگ چیمبرز انسٹال بھی کئے جا چکے ہیں۔

  مصنوعی بارش کو امریکہ نے ویتنام جنگ کے دوران ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جب اس نے مون سون کی بارشوں کے دوران Cloud Seeding کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے مون سون کے دورانیے کو بڑھا دیا، اس سے ہوا یہ کہ شمالی ویت نام کی افواج کو جنگ کے دوران گاڑیوں کے ذریعے رسد کی فراہمی اور پیش قدمی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سوویت یونین بھی 1986 میں چرنوبل واقعے کے بعد ائیر کرافٹس کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی بارش برسا چکا ہے تا کہ متاثرہ علاقے سے ملحقہ علاقوں میں ریڈی ایشننر کو پھیلنے سے روکا جا سکے-

بات کی جائے  اگر بھارت کی تو اس نے پہلی مرتبہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے 1951 میں  مصنوعی بارش برسانے کی کوشش کی اس کے بعد 1952 میں بھی بھارت سے غباروں کے ذریعے سلور آئیڈائید کو بدلوں میں سیڈ کرنے کی کوشش کی۔اس کے بعد بھی بھارت نے کرناٹکہ، ممبئی کے علاقوں میں مصنوعی بارش برسانے کی کوششیں کی ہیں اور مزید بھی تجربات جاری ہیں۔

اب دیکھتے ہیں اس سوال کو کہ کیا کبھی پاکستان میں بھی مصنوعی بارش برساے کی کوشش کی  گئی تو اس کا جواب ہے ” جی ہاں”۔

پاکستان نے 2000 میں ملک کے میں جاری خشک سالی سے نمٹنے کے لئے ائیر کرافٹس کے ذریعے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقوں میں مصنوعی بارش کی پہلی باقاعدہ کوشش کی جو کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آلودگی کی وجہ سے پاکستان  کے کچھ شہر شدید دھند یا سموگ کی زد میں بھی رہتے ہیں لہذا 2021 میں حکومت پاکستان اس آپشن پر بھی غور کر رہی تھی کہ یو اے ای کی مدد سے  مصنوعی بارش برسا کر اس کو کم کیا جا سکے۔

کیا مصنوعی بارش پانی کی کمی کو پورا کر سکتی ہے؟

 یقینا” آپکے کیورئیس مائنڈ میں یہ سوال ضرور آ رہا ہو گا کہ اس وقت دنیا میں بے شمار ایسے علاقے جو یا تو بالکل صحرا ہیں جہاں یا تو بارشیں بہت کم ہوتی ہیں یا بالکل نہیں ہوتیں، تو کیا ان علاقوں میں مصنوعی بارش کو برسا کر پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، تو دوستو اس سوال کا جواب ہے “ہاں،کسی حد تک”، تو یہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بالکل بھی ممکن نہیں کہ انھیں مکمل سرسبز بنایا جا سکے، اور نا ہی مصنوعی بارش قدرتی بارش کا مکمل طور پر نعم البدل بن سکتی ہے اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔

سب سے پہلے اگر دیکھا جائے تو مصنوعی بارش برسانے کے لئے Specific Weather Conditions یعنی کچھ بادلوں کا بے شک کمزور ہی سہی لیکن ایٹماسفئیر میں ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ بارش کو بالکل نئے سرے سے بنایا جائے اور اسے برسایا جائے۔

 دوسرے نمبر پر اس طریقہ کار سے برسائی جانے والی بارش کی cost بہت زیادہ ہوتی، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ 1 ایکڑ فٹ مصنوعی بارش برسانے کے لئے آنے والی کم ازکم 27 ڈالرز سے 400 ڈالرز فی ایکڑ فٹ ہو سکتی ہے، لہذا یہ غریب ممالک کے لئے تو کسی صورت فائدہ مند نہیں۔

اس کے علاوہ اس طریقہ کار میں کلائوڈ سیڈنگ(cloud seeding) کیلیے اکثر اوقات سلور آئیوڈائیڈ کو استعمال کی جاتا ہے ، سلور ایک Toxic میٹل ہے اور اس کی ایک حد سے زیادہ مقدار انسانوں اور آبی حیات کے لئے انتہائی خطر ناک ہو سکتی ہے۔

دوستو weather کے کچھ مخصوص patterns  ہوتے ہیں تو اس صورتحال میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ مصنوعی بارش کے ذریعے طاقتور ممالک دوسرے ملک کی طرف جانے والے بادلوں کو چرائیں گے اور اپنے ہی ملک میں برسائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے ایک ہی ملک کے دو شہروں کے درمیان ایسی کوئی Situation دیکھنے کو ملے اور بادلوں کے معاملے پر تنازعات بھی ہونا شروع ہو جائیں۔

 اس عمل کے بعد بارش برسنے کے امکانات تو بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں لیکن سو فیصد اس بات کی گارنٹی بھی نہیں ہوتی کہ بارش ضرور برسے گی اور یہ بھی یاد رہے کہ Weather Midification کا یہ طریقہ کار ایک مخصوص علاقے میں تو کار آمد ہو سکتا ہے لیکن اس سے Overall کلائیمیٹ کو یعنی کسی بڑے علاقے کے کلائیمیٹ کوتبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

کیا  بادلوں کو بھگایا بھی جاسکتا ہے؟

 کلاؤڈ سیڈنگ کا طریقہ کار جہاں بارشیں برسانے کا باعث بنتا ہے وہیں یہ بادلوں کو بھگانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔چائنہ نے اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے 2008 میں ہونے والے بیجنگ اولمپکس کی opening ceremonny میں ہونے والی بارش کے چانسز کو بھی کم کر دیا تھا، یعنی بارش کو بھگا دیا تھا۔ چائنہ نے کیا یہ کہ بیجنگ شہر سے کے چاروں طرف تقریبا” 21 مقامات سے تقریبا 1100 کے لگ بھگ سلور آئیوڈائیڈ  فلڈ (Silver Iodide Filled) راکٹ فائر کر کے بیجنگ شہر کی طرف آنے والے Premature بادلوں کو پہلے ہی اتنا طاقتور کر دیا تھا کہ وہ  شہر پہنچنے سے پہلے ہی شہر سے باہر کہیں اور برسنا شروع ہو گئے۔اس طرح بیجنگ کی طرف آنے والے بادل کمزور ہو گئے اور اوپننگ کی تقریب کے دوران آسمان بالکل صاف رہا، صرف یہی نہیں بلکہ چائینہ میں اکثر کسی بڑے ایونٹ  یا  سیاسی  سر گرمی سے پہلے بادلوں کو بھگانے کی ایک روایت ہی پڑ چکی ہے۔

دوستو ایسے ہی 2020 میں انڈونیشیا میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے آنے والے جکارتہ شہر میں بڑی حد تباہی مچا دی تھی۔جب کہ Forecasting میں مزید بارشوں کی پیشن گوئی بھی کی جارہی تھی تو اس صورتحال میں انڈونیشیا کی ائیر فورس نے مزید فلڈ کو کنٹرول کرنے کے لئے اور جکارتہ شہر کو مزید تباہی سے بچانےکے لئے کلاؤڈ سیڈنگ کے طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے بادلوں کو شہر سے باہر ہی برسا دیا تھا۔ اور مزیڈ فلڈنگ کو کنٹرول کر دیا۔

 یہ تو ہو گئی بات مصنوعی بارش Cloud Seeding کے ذریعے کیسے برسائی جا سکتی ہے اور اس کی کیا کچھ limitations ہیں، اب ذکر کرتے ہیں ایک مصنوعی بارش برسانے کے ایک اور طریقہ کار کا جو 2017 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ(University of Reading) کے سائنسدانوں نے الیکٹرک چارجز کے ذریعے مصنوعی بارش برسانے کے لئے کیا، اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے کو ملا جب یو اے ای نے اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے  ڈرونز کے ذریعے بادلوں میں چارجز انڈیوس(Induce) کئے اور اچھی خاصی بارش برسائی، یہ طریقہ کار اس لئے بھی بہتر ہے کہ اس میں کلاؤڈ سیڈنگ کے بر عکس ماحولیاتی خطرات کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu