Home Interesting Facts ماچوپیچو بادلوں کو چھوتا 600 سال قدیم حیرت انگیز شہر

ماچوپیچو بادلوں کو چھوتا 600 سال قدیم حیرت انگیز شہر

by Adnan Shafiq
0 comment

  ائیے ایسے خوبصورت شہر کی سیر کرتے ہیں جس کے فن تعمیر کو دیکھ کر آپ اسے بنانے والے کی کاریگری کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ یہ شہر زمین سے ہزاروں فیٹ اوپر ایک پہاڑ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے محض پتھروں سے بنایا گیا ہے اور ان پتھروں کو آپس میں جوڑنے کے لیے کسی بھی مٹی یا گارے کا استعمال نہیں کیا گیا، آج سے صدیوں پہلے آخر وہ کونسی تکنیک تھی جس کی بدولت بادلوں میں یہ شاندار شہر تعمیر کرنا ممکن ہو پایا تھا؟ اسے بنانے والے کس ملک اور کس تہذیب کے لوگ تھے؟ اس شاہکار کو بنانے کے محض نوے سال بعد یہاں کے باسی اپنے اس شہر کو چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے؟

 

ماچو پیچو – “اَنکا” تہذیب

 جس قدیم شہر کی بات ہم کر رہے ہیں اسکا نام دراصل ماچو پیچو ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے ایک ملک پیرو میں کاسکو کے علاقے میں اندیز  andes پہاڑی سلسلے کے  دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ اسکے ایک طرف ھیانہ Huayna Pichu پیچو کا پہاڑ ہے اور دوسری جانب ماچو پیچو نام کا ہی ایک پہاڑ ہے۔ ماچو پیچو دراصل مقامی زبان میں قدیم چوٹی کو کہا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے پتھروں کے اس شہر کو بھی ماچو پیچو کا نام ہی دیا گیا ہے۔ یہ ایک سو مربع میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ایک شاندار قلعہ نما شہر ہے۔ دوستو اس کی تعمیر جنوبی امریکہ کی انکا inca قوم  نے چودہ سو پچاس کی دہائی میں کی تھی۔ اَنکا inca سلطنت پندرہویں اور سولہویں صدی میں اپنے عروج پر تھی اور انہوں نے جنوبی امریکہ کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا۔ اس سلطنت کا صدر مقام پیرو کا موجودہ شہر کاسکو تھا۔ اس سلطنت کے پہلے بادشاہ نے اپنے لئے انکا کا لقب پسند کیا تو یہاں کے باسی بھی انکا کہلانے لگے۔ دوستو انکا قوم علم و فن میں بہت آگے تھی۔ تمام ذرائع پیداوار حکومت کی تحویل میں ہوتے تھے اور اس طرح ریاست عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی پابند تھی۔ یہ لوگ سورج کی پوجا کیا کرتے تھے- اس لئے ماچو پیچو کی تعمیر میں سورج کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جن دنوں جنوبی امریکہ میں اِنکا سلطنت کا راج تھا، اسی دور میں میں میکسیکو اور اس سے ملحقہ امریکی ممالک میں ایک اور قوم کا بول بولا تھا۔ یہ  مایا تہذیب تھی جو ان دنوں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن یہ لوگ زیادہ تر سینٹرل امریکہ یعنی mesoamerica کے علاقوں تک ہی محدود تھے۔

 ماچو پیچو میں پتھروں سے بنی دو سو کے قریب عمارتیں موجود ہیں اس لئے اسے ایک شہر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس دور میں یہاں رہائش کے لئے گھر بھی بنائے گئے، حمام اور غسل خانے بنائے گئے،   کچھ عمارتیں اپنے دور میں مذہبی اعتبار  سے اہم تھیں، کچھ عوامی تقریبات کے لئے بنائی گئی تھیں تو کچھ ماہرین فلکیات کے لئے مخصوص تھیں ۔  سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ شہر سطح سمندر سے سات ہزار نو سو ستر فٹ بلندی پر بنایا گیا۔ یہ شہر آج اپنی اصل حالت میں تو موجود نہیں ، بلکہ کھنڈرات کی سی شکل پیش کرتا ہے،لیکن یہ کھنڈرات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

ماچو پیچو کی تاریخی اہمیت 

دوستو انکا تہذیب کے لوگ لکھنا نہیں جانتے تھے، اس لئے تاریخی طور پر ان کا اپنا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، البتہ دوسری تہذیبوں نے انکے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ تاریخ کا حصہ ضرور ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ ماچو پیچو کو بادشاہ کے رہنے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ بادشاہ کے ساتھ اسکے سبھی ساتھی، یعنی انکا تہذیب کی اشرافیہ اسی جگہ مقیم تھی۔ کچھ چھٹیاں گزارنے یہاں آیا کرتے تھے۔ یہاں مقیم افراد کی کل تعداد سات سو کے قریب تھی۔  ایک رائے یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ماچو پیچو ایک مذہبی مقام کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ دوستو انکا تہذیب کے لوگ چونکہ سورج کو پوجتے تھے، ماچو پیچو کے مقام کا تعین اسی لحاظ سے بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا، یہاں ایک خاص مقام ایسا ہے جہاں پتھروں سے ایک سٹریکچر بنایا گیا ہے، اس کے سب سے اوپر والے پتھر کو ایک خاص زاویے پر اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ ہر سال ایک دن ایسا آتا ہے جب سورج اس پتھر کے عین اوپر آ جاتا ہے اور اس پتھر کا سایہ نہیں بنتا۔ یہ پورا سٹریکچر انکا تہذیب میں مذہبی لحاظ سےبہت اہم مانا جاتا تھا، اسے وقت کا تعین کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض مورخین یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ماچو پیچو بنانے کی ایک وجہ سورج کے قریب آنا بھی تھی۔ اسی غرض سے اس شہر میں ایک  علامتی سورج  جیسی گول عمارت بھی بنائی گئی تھی، اسے مقدس عمارت کا درجہ حاصل تھا، یہ ایک طرح کا چرچ تھا جہاں سورج کی عبادت کی جاتی تھی،  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں صرف خاص لوگوں کو ہی آنے کی اجازت تھی، یہ لوگ یہاں فلکیاتی اجسام جیسے چاند، سورج، ستاروں وغیرہ کی گردش پر بھی غور کیا کرتے تھے۔ دوستو یہاں کی تمام عمارتیں گرانائیٹ پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان پتھروں کو اپنی جگہ پر رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کے لیے کسی گارے یا مٹی کا استعمال نہیں کیا گیا، اس کے باوجود یہ شہر آج  چھے سو سال بعد بھی تقریباً اپنی اصلی حالت میں ہی موجود ہے،  اس دوران ان پتھروں سے زلزلوں کا مقابلہ کس طرح کیا ہوگا؟ اس کے پیچھے انجینئرنگ کا ایک نہایت دلچسپ راز چھپا ہوا ہے۔ دراصل ان پتھروں کو ایسی شکل اور سائز میں تراشا گیا ہے کہ یہ ایک دوسرے میں بالکل کسی پزل پیسز کی مانند اٹک جاتے ہیں یعنی فکس ہوجاتے ہیں، پھر چاہے زلزلہ بھی آجائے، یہ ہلتے تو ہیں لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ ان کو تراشنے کے لئے اس دور میں آجکل کی طرح اوزار اور مشینری تو نہیں تھی، البتہ ماہر قدیمہ کا اندازہ ہے کہ ایک پتھر  ہیماٹائٹ  hematiteکو اوزار کےطور پر استعمال کر کے گرانائیٹ کو من پسند شکل اور سائز میں تراشا جاتا ہوگا۔ 

  ماچو پیچو کے لوگ بڑی حد تک غذائی ضروریات کے لئے خود کفیل تھے۔یہاں کیھتی باڑی کے لیے مخصوص جگہ بنائی گئی تھی، اور پانی کی ترسیل کا نظام بہترین پلاننگ کے ساتھ کیا گیا تھا، اس مقصد کے لئے  چھوٹی چھوٹی نالیاں بھی بنائی گئیں تھیں۔ یہاں مکئی، آلو، ٹماٹر، مونگ پھلی، کھیرا، ایواکاڈو، اور کپاس وغیرہ کاشت کی جاتی تھی۔

ماچو  پیچو خالی کیوں کرنا پڑا؟

ویسے تو یہاں کے باسی ایک شاندار زندگی گزار رہےتھے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد انکو یہ شہر خالی کرنا پڑا۔ آخر کیوں؟ اسکی وجہ ہم آپکو بتاتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ پندرہویں اور سولہویں صدی میں انکا تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ لیکن پندرہ سو تیس کی دہائی میں سپین کے جنگجووں نے انکا تہذیب کے کئی علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا۔سپین ان دنوں جنوبی امریکہ میں اپنی نوآبادیات قائم کر رہا تھا اور اسے سلسلے میں مزید پیش قدمی جاری تھی۔ ماچو پیچو کے باسیوں کو ڈر تھا کہ اب ان کا اگلا ہدف وہی ہونگے، لہٰذا وہ اپنا یہ شاندار شہر ایسے ہی چھوڑ کر کسی اور مقام پر رخصت ہوگئے۔ کچھ تاریخی حوالہ جات کے مطابق یہ لوگ یہاں سے جاتے وقت ماچو پیچو کے آس پاس کچھ جھاڑیوں اور درختوں کو آگ لگا گئے تھے۔ تاکہ اگر سپینش فوجیں اس علاقے کے قریب آئیں بھی تو وہ یہی سمجھیں کہ اس جانب سوائے جنگل اور بیابان کے کچھ نہیں ہے۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان دنوں یہاں چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی اسی لئے ماچو پیچو کو خیرباد کہنا پڑا۔ البتہ  قسمت کا کھیل دیکھیں کہ سپین کے حملہ آور دراصل ماچو پیچو تک آئے ہی نہیں ، اس بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ آگ لگانے والا پلان کامیاب رہا، سپینش فوج کے وہم و گمان میں ہی نہیں تھا کہ کسی بلند و بالا پہاڑ کے اوپر ایک سنسان لیکن شاندار شہر انکا منتظر ہوگا، اس لئے یہ شہر خالی ہی رہا اور تباہی سے بھی بچ گیا۔ البتہ باقی تمام انکا سلطنت پر سپین قابض ہوگیا اور انکا سلطنت کا 1572 تک خاتمہ ہوگیا۔

کس نے دریافت کیا؟

دوستو چودہ سو پچاس کی دہائی میں تعمیر کیا گیا یہ شاندار قلعہ نما شہر ماچو پیچو تقریباً نوے سال بعد خالی کرنا پڑا۔ یہ شپینش حملہ آوروں کی نظروں سے تو بچا رہا، البتہ اس کے بعد بھی چار صدیوں تک یہ شہر زمانے کی گردو غبار کی نذر ہو کر دنیا سے اوجھل رہا۔ کس کو خبر تھی کہ پیرو کے جنوب میں انسانی تاریخ کا ایک اپنی مثال آپ نمونہ دھول مٹی میں اٹا پڑا ہے۔ آخر کار انیس سو گیارہ میں اس شہر کو دریافت کر لیا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ امریکی یونیورسٹی ہارورڈ کے ایک پروفیسر اور ماہر آثارِ قدیمہ  ہِرم بِنگھم hiram bingham اپنی ٹیم کے ہمراہ کاسکو کے قریب انکا تہذیب کا ہی ایک دوسرا مشہور شہر ولکابامبا Vilcabamba ایکسپلور  کرنے نکلے تھے، یہاں مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران انہیں بتایا گیا کہ قریب ہی ایک پہاڑ پر کچھ کھنڈرات موجود ہیں۔ یہ معلومات انکو بالکل عام مقامی لوگ دے رہے تھے، جس کسان نے بِرہم کو ان کھنڈرات کا بتایا، وہ اس پہاڑ کو ماچو پیچو کہہ رہا تھا، ماچو پیچو دراصل اس علاقے کی مقامی زبان میں قدیم چوٹی کو کہا جاتا ہے۔ انہی لوگوں کی مدد سے بِنگھم اس مقام تک پہنچ گیا اور ان کھنڈرات کو دیکھ کر وہ بہت پرجوش ہوگیا تھا۔ اتنا ایکسائیٹڈ کے وہ فوری طور پر یہاں سے کچھ پتھر اور دوسری چیزیں اپنے ساتھ امریکہ بھی لے گیا تاکہ ان پر تحقیق کی جا سکے۔  یہ بات دلچسپ ہے کہ  اس واقعے کے ایک سو سال بعد پیرو کی حکومت نے امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں مقدمہ چلایا اور آخرکار امریکہ کو یہ چیزیں واپس کرنی ہی پڑی۔ پیرو کی حکومت نے اس جگہ کی بحالی کا کام گیا ، اس دوران یہاں سے یہاں سے مٹی کے برتن اور دیگر استعمال کی اشیا بھی ملیں اور کھدائی کے دوران انسانی ڈھانچے بھی ملے، ماچو پیچو تک پہنچنےکے لیے حکومت نے سڑکیں اور ریلوے ٹریک بھی بنا دیئے اور  آج ماچو پیچو کو ہر سال پندرہ لاکھ سے زائد سیاح وزٹ کرتے ہیں۔ انیس سو تراسی میں اسے یونیسکو نے ورلڈ ہیریٹیج یعنی عالمی ورثے کی لسٹ میں شامل کر لیا تھا جبکہ دو ہزار سات میں اسے دنیا کے نئے سات عجائبات کا حصہ بھی بنا دیا گیا۔ 

 زرا سوچیں کہ کئی صدیوں پہلے کا انسان کس کس طرح کے شاندار شہر تعمیر کر گیا ہے۔ ماچو پیچو انسانی تاریخ کا ایک شاہکار ہے جسے آج کے ترقی یافتہ دور کے انجنئیر بھی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دھول مٹی میں اٹے ، آج بھی مزید کئی  قدیم شہر دنیا کی نظروں سے دور کہیں وقت کی ستم ظریفی پر آہ و بکا کر رہے ہوں، اور یہ بھی اچانک کسی راہگیر کی نظروں میں آجائیں۔  

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu