Home Interesting Facts  کنگ چارلس سوئم – برطانیہ کے نئے بادشاہ

 کنگ چارلس سوئم – برطانیہ کے نئے بادشاہ

by Adnan Shafiq
0 comment

آٹھ ستمبر 2022 کو ستر سال سے زائد عرصہ تک تخت برطانیہ پر براجمان رہنے والی کوئین الزبتھ دوم کا دور بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کے جاتے ہی ان کے بڑے بیٹے اور اب تک برطانیہ کی تاریخ میں ، سب سے زیادہ عرصے تک King in waiting یعنی ولی عہد رہنے والے شہزادے، چارلس تھری نے شاہی تخت سنبھال لیا۔ کنگ چارلس تہتر 73  برس کے ہوچکے ہیں۔ بحیثیت بادشاہ ان کے کیا فرائض ہیں، ان کے پاس کونسی پاورز ہیں ، لیڈی ڈیانا سے انکی شادی کیسے ٹوٹی؟  کمیلا پارکر سے رشتہ کب جڑا،  اسلام کے بارے میں انکی کیا رائے ہے؟

پیدائش اور ولی عہد بننا

  کنگ چارلس کوئین الزبتھ دوم اور پرنس فلپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ یہ چودہ نومبر انیس سو اڑتالیس 1948 کو Buckingham پیلس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان دنوں تخت برطانیہ ملکہ الزبتھ کے والد کنگ جارج ششم کے پاس تھا۔ فروری انیس سو باون 1952 میں کنگ جارج کا انتقال ہوا اور پرنس چارلس کی والدہ ملکہ بن گئیں۔  اس وقت پرنس چارلس محض تین برس کے تھے۔ کوئین الزبتھ کا ملکہ کے منصب پر فائز ہونے کا مطلب تھا کہ اب تخت کے اگلے جان نشین ملکہ کے بڑے بیٹے یعنی شہزادہ چارلس تھے۔اس ننھے شہزادے نے اپنی والدہ کی تاج پوشی کی تقریب  میں بھی شرکت کی۔ ولی عہد بننے کے بعد شہزادہ چارلس کو کئی طرح کے القابات  بھی مل گئے تھے۔ ان میں

 Prince of Wales, Duke of Cornwall, Earl of Carrick وغیرہ شامل ہیں۔  کوئین الزبتھ اور پرنس فلپ کے پرنس چارلس کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہیں- اب تک شاہی خاندان کے تمام بچوں کی ابتدائی تعلیم و تدریس کا انتظام  شاہی محل کے اندر ہی کیا جاتا تھا۔ پرنس چارلس برطانیہ کے پہلے جان نشین ہیں جن کی تعلیم کا آغاز سکول میں ہوا۔ انہوں نے لندن، انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے مختلف سکولوں سے تعلیم حاصل کی۔ انکی بائیوگرافی کے مطابق پرنس چارلس کو بچپن میں bully کیا جاتا تھا۔ وہ اپنے والدین کے زیادہ قریب نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے پرنس چارلس کی طبیعت بہت زیادہ حساس ہو چکی تھی۔ شاہی خاندان  کے بچے عام طور پر اے لیولز مکمل کرنے کے بعد ملٹری ٹریننگ لیتے ہیں، لیکن  شہزادہ چارلس نے یہ رسم بھی توڑی اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔ انکا تعلیمی کیریئر بہت شاندار رہا۔ انہوں نے ہسٹری، آرکیالوجی ، انتھروپرولوجی anthropology اور لینگوئج کے مضامین پڑھے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج سے بی اے کیا اور یونیورسٹی ڈگری لینے والے پہلے برطانوی ولی عہد بنے۔ اس کے بعد Cambridge سے  ہی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پرنس چارلس پرنس آف ویلز تو تھے ہی لیکن اس کی باقاعدہ تقریب  1969 میں ہوئی۔ جب ملکہ نے ان کی تاج پوشی کی۔ اس کے بعد چارلس نے بحیثیت پرنس آف ویلز اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ مختلف تقاریب میں شرکت کرنا، مختلف ممالک کے دوروں میں برطانوی شاہی خاندان کی نمائندگی کرنا پرنس آف ویلز کی زمہ داریوں میں شامل تھا۔  1970 کی دہائی میں پرنس نے ملٹری ٹریننگ بھی حاصل کی اور رائل ائیر فورس جوائن کرلی۔ وہ کوالیفائیڈ پائلٹ بھی ہیں۔۔ 

ڈیانا سے شادی 

 انتیس جولائی  1981 کو پرنس چارلس کی شادی لیڈی ڈیانا سے ہوئی۔ دونوں کی عمر میں اچھا خاصا فرق تھا۔ چارلس اس وقت 32 سال جبکہ ڈیانا 20 برس کی تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ پرنس چارلس اس شادی پر رضامند نہیں تھے اور ان پر انکے والد کی جانب سے اس شادی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس شادی کی تقریب کو تاریخ کا ایک اہم ایونٹ مانا جاتا ہے. کروڑوں لوگوں نے اس تقریب کو ٹی وی سکرینز پر لائیو دیکھا۔ لیڈی ڈیانا کے عروسی لباس کو بیش قیمت جواہرات سے سجایا گیا۔ لیکن  یہ شادی صرف پندرہ برس چل سکی۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر افئیرز چلانے کے الزام لگایا کرتے تھے۔ سال  1997 میں لیڈی ڈیانا ایک کار حادثے میں وفات پا گئیں۔  اس سارے معاملے میں پرنس چارلس کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ عام طور پر یہی تاثر پیدا ہوگیا کہ لیڈی ڈیانا کو پیش آنے والے مسائل کے اصل ذمہ دار پرنس چارلس ہیں۔ لیڈی ڈیانا سے پرنس چارلس کے دو بیٹے ہیں۔ پرنس ولیم اور پرنس ہیری۔ اب پرنس چارلس کے بادشاہ بننے کے بعد تخت کے اگلے جان نشین پرنس ولیم ہیں اور پرنس آف ویلز کا ٹائٹل بھی اب انہی کے پاس ہے۔ پرنس چارلس کے اپنی دیرینہ دوست کمیلا پارکر کے ساتھ تعلقات پر بہت چرچے ہوتے رہے۔ دونوں کی پہلی ملاقات 1970 میں ایک پولو میچ کے دوران ہوئی تھی۔ کمیلا کے والد ریٹائرڈ آرمی افسر تھے۔  دونوں کی شادی پر شاہی خاندان رضا مند نہیں ہوا تھا۔ کمیلا پارکر کی شادی ایک برٹش آرمی افسر سے کر دی گئی تھی اور چارلس کی ڈیانا سے۔ دونوں کی یہ شادیاں جلد ہی ٹوٹ گئیں اور  دو ہزار پانچ میں پرنس چارلس نے کمیلا پارکر  سے شادی کر لی۔ اس شادی پر  ملکہ زیادہ خوش نہیں تھیں۔ البتہ یہ شادی کامیاب رہی اور دونوں آج تک ساتھ ہیں۔  آج کمیلا پارکر پرنس چارلس کے بادشاہ بننے کے بعد کوئین  بھی بن چکی ہیں۔

بحیثیت بادشاہ 

 ملکہ الزبتھ دوم کی وفات کے بعد اب پرنس چارلس پادشاہ بن چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 73 برس ہے۔ وہ برطانوی تخت سنبھالنے والے سب سے عمر رسیدہ بادشاہ ہیں۔  برطانیہ کی تاریخ میں اب تک چارلس نام کے دو بادشاہ  گزر چکے ہیں اس لیے موجودہ کنگ چارلس کے ساتھ تھری لکھا اور بولا جاتا ہے۔  اس وقت کنگ چارلس کل پندرہ ممالک کے بادشاہ ہیں، ان میں کینیڈا، نیو زی لینڈ ، آسٹریلیا، جمیکا وغیرہ شامل ہیں۔ کنگ چارلس چرچ آف انگلینڈ ، برطانوی ملٹری اور عدلیہ کے سربراہ بھی ہیں۔ تخت تو کنگ چارلس سنبھال چکے ہیں لیکن بحیثت بادشاہ ان کی تاج پوشی کی تقریب تاحال نہیں ہوئی۔ اس تقریب کے لیے بہت سی پلاننگ درکار ہوتی ہے اور اسکے لئے ایک سال کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔ کنگ چارلس کے بادشاہ بننے کے بعد انکی موجودہ اہلیہ کمیلا پارکر کے نام کے ساتھ queen consort کا ٹائٹل لگ چکا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موجودہ بادشاہ کی بیگم ہیں۔ consort کا مقصد یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ یہ کوئین دراصل ruling queen نہیں ہیں۔ بادشاہ کی وفات کے بعد بھی یہ ملکہ نہیں بن سکتی کیوں کہ یہ پیدائشی طور پر شاہی خاندان سے نہیں ہیں۔ 

 اب بات کرلیتے ہیں کہ بادشاہ بننے کے بعد کنگ چارلس کی زمہ داریاں کیا ہیں، اور انکے پاس کون کون سی پاورز آ چکی ہیں

بحیثیت بادشاہ کنگ چارلس کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کو سپورٹ نہیں کر سکتے۔ ان کو سیاسی طور پر نیوٹرل رہنا ہوگا۔ وہ ریاست کے سربراہ ہونگے نا کہ حکومت کے۔ کوئی بھی بل پاس کروانا ہو تو وہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد بادشاہ کے پاس آئے گا، بادشاہ کی مرضی ہے کہ اسے پاس کریں یا نہ کریں۔ کنگ چارلس کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ کسی بھی وقت پارلیمنٹ ختم کر کے اپنی مرضی کا وزیراعظم منتخب کر سکتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج آنے پر نئی پارلیمنٹ بننے کے بعد بادشاہ سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کو وزیراعظم بننے کی دعوت دیتا ہے۔ پارلیمنٹ میں کام کا آغاز بادشاہ کے خطاب سے کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے آفیشل دورے بھی بادشاہ کے فرائض میں شامل ہیں۔ کنگ چارلس کی  نیٹ ورتھ اس وقت چھ سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔  ان کے پاس بیش قیمت جیولری موجود ہے، مہنگے ترین آرٹ pieces ہیں، اور ملین ڈالرز کی پراپرٹی بھی انکے نام ہے۔ کنگ چارلس کے پاس اپنی کئی گاڑیاں ہیں، دوہزار بائیس کی کامن ویلتھ گیمز میں چارلس خود اپنی مہنگی ترین لگژری گاڑی Aston Martin ڈرائیوو کر کے آئے تھے۔

 1992 سے پہلے برطانوی شاہی خاندان پر انکم ٹیکس دینا لازم نہیں تھا۔ لیکن1993 میں حکومت اور کوئین الزبتھ دوم میں ایک معاہدہ ہوا۔ جس میں طے پایا کہ شاہی خاندان کے افراد انکم ٹیکس تو پے کیا کریں گے لیکن ان سے INHERETANCE TAX نہیں لیا جائے گا،  برطانیہ میں دراصل ایک قانون ہے کہ عام لوگوں کو inheritance tax دینا پڑتا ہے۔ یعنی جو چیزیں ان کو وراثت میں ملتی ہیں، انکی مالیت کے حساب سے وہ ٹیکس پے کرتے ہیں۔ لیکن اس معاہدے کے بعد آج کنگ چارکس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔

  جن ممالک  پر شاہی خاندان کا راج ہوتا ہے ، انکے کرنسی نوٹس اور سکوں پر کوئین الزبتھ دوم کی تصویر پرنٹ کی جاتی تھی، اب انکی وفات کے بعد نئے بادشاہ یعنی کنگ چارلس کی تصویر پرنٹ ہوا کرے گی، جبکہ ملکہ کی تصویر والے نوٹ قابل استعمال ہی رہیں گے

بادشاہ کی اسلام متعلق رائے

 کنگ چارلس کئی بار اسلام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے اسلام کی کھل کر تعریف بھی کی ہے جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے انکو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ یہ جان کر ضرور حیران ہو جائیں گے کہ کنگ چارلس نے خاص طور پر قرآن کریم کا مطالعہ کرنے اور اسکو سمجھ کر پڑھنے کے لئے عربی بھی سیکھ رکھی ہے۔ کنگ چارلس 1993 سے آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیز کا حصہ ہیں۔ اسی سال ایک تقریب میں انہوں نے ایسی تقریر کی تھی جس سے پوری دنیا دنگ رہ گئی تھی۔  اس تقریر کا عنوان تھا “اسلام اور مغرب “۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اسلام کے متعلق ایسی مثبت باتیں کیں جو کوئی بھی امید نہیں کر رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام ہمارے ماضی اور ہمارے حال کا حصہ ہے۔ یہ مذہب ہمیں انصاف پسندی اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔  کنگ چارلس مختلف تقاریر میں اسلامی معاشرے میں عورت کو دئیے جانے والے حقوق کی تعریف بھی کرچکے ہیں۔ 2018 میں رائل رائٹر رابرٹ جابسن کی لکھی گئی ایک کتاب میں یہ  انکشاف بھی ہوا کہ کنگ چارلس 2003 میں ہونے والی عراقی در اندازی کے خلاف تھے۔ اسرائیل – فلسطین تنازع میں بھی انکی رائے فلسطین کے موقف سے ملتی جلتی ہے۔ 2020 میں فلسطین کے دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ جلد ہی فلسطین میں آزادی ، امن اور انصاف قائم ہو جائے۔  چارلس یورپی ممالک میں مسلم خواتین کے حجاب پر لگی پابندی کے بھی خلاف ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خاندان نے 2013 میں کنگ چارلس کے خیراتی ادارے میں ایک ملین پاؤنڈ ڈونیٹ کئے تھے جسے چارلس نے قبول کر لیا تھا۔ 

فلاحی کام

کنگ چارلس نے انیس سو چھہتر 1976 میں prince’s trust کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد غریب نوجوانوں کی مالی مدد کرنا تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ بیس چیریٹی اداروں کے صدر ہیں۔ جبکہ چار سو سے زائد خیراتی اداروں سے منسلک ہیں۔ کنگ چارلس ہیومن رائٹس پر بھی بات کرتے ہیں اور ماحول کی درپیش مسائل کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ وہ نئے طرز کے فن تعمیر کے خلاف ہیں ۔ وہ اب تک کئی ماحولیاتی تحفظ کی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں-

 کنگ چارکس ماڈرن دنیا کے خلاف ہیں۔ انکے مطابق قدرت کا اصول میانہ روی کا ہےکنگ چارلس کے یہی نظریات یورپی ممالک اور خود انکے اپنے زیر کنٹرول ممالک کے لوگوں کو بھی زیادہ اچھے نہیں لگتے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں کنگ چارلس پر ہیں۔ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ کنگ چارلس کس طرح کے بادشاہ ابھر کر آئیں گے۔ انکا اسلام کی جانب رجحان بھی بہت سے لوگوں کو کھٹکتا ہے۔ کنگ چارلس کس قسم کے فیصلے لیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu