Home Uncategorized چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں؟

چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں؟

by Adnan Shafiq
0 comment

دنیا میں نظامِ مملکت چلانے کیلئے مختلف نظام رائج ہیں۔کہیں ملک وفاقی پارلیمانی تو کہیں صدارتی نظام کے تحت چلایا جارہا ہے۔کہیں ایک چھوٹا پورا ملک ہی ایک یونٹ ہے تو کہیں بہتر گورننس کیلئے ایک ملک کو مختلف یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کو کہیں ریاست،کہیں صوبہ، کہیں کاؤنٹی تو کہیں ریجن کہا جاتا ہے۔پاکستان میں سالہا سال سے گورننس کے مسائل ہیں، جن کی وجہ سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ملک میں مختلف انتظامی یونٹس یا صوبے بنانا ہوں گے تاکہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جاسکے اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے خواب کو حقیقت بنایا جاسکے، پاکستان میں صوبے کیوں نہیں بن رہے؟ نئے صوبے نہ بننے سے کیا نقصانات ہورہے ہیں؟ اور پاکستان میں کتنے نئے صوبے بن سکتے ہیں، ان تمام سوالات کا جواب ہم آج کی اس ویڈیو میں جانیں گے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت کیوں ہے؟

  سب سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ پاکستان کو نئے صوبوں کی ضرورت  آخر کیوں ہے اور اب تک زیادہ صوبے نہ بننے سے پاکستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔تو یہ کہانی شروع کرنا پڑے گی قیامِ پاکستان سے۔1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا تو اس میں 17 صوبے تھے اور سینکڑوں ریاستیں تھیں، صوبوں میں سے تین سندھ، سرحد اور بلوچستان پاکستان کے حصے میں آئے۔جبکہ بنگال اور پنجاب کو مسلم اور غیر مسلم اکثریتی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس کے مشرقی حصے کو مشرقی پاکستان کہا گیا، جبکہ مغربی پنجاب، صوبہ سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور صوبہ بلوچستان پر مشتمل حصے کو مغربی پاکستان کہا گیا۔مغربی حصے میں 13 خودمختار شاہی ریاستیں بھی تھیں جنہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ان ریاستوں میں بہاولپور پنجاب جبکہ خیرپور سندھ کا حصہ بنی۔ ریاست مکران، قلات، لسبیلہ اور خاران بلوچستان میں شامل ہو گئیں۔ دوسری جانب ریاست دیر، چترال، سوات، امب Amb اور پھلارا Phulra شمال مغربی سرحدی صوبے میں ضم ہوگئیں۔اُدھر ریاست نگر اور ہنزہ عبوری صوبہ گلگت بلتستان میں شامل ہیں۔

تقسیم کے بعد بھارت نے جلد ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ گڈ گورننس کے خواب کی تعبیر زیادہ سے زیادہ انتظامی یونٹس کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے اس نے انتظامی تقسیم کو اپنایا اور اس وقت بھارت کے 28 ریاستیں اور 8 وفاقی انتظامی علاقے یا یونین ٹیریٹریز Union Territories ہیں۔بھارت میں نئے انتظامی یونٹس بنانے کا کام 1950 میں ہی شروع کردیا گیا تھا لیکن پاکستان میں یہ کام اب تک سیاسی نعروں اور دعوؤں کی حد تک ہی محدود رہا ہے، اور وہی چار صوبے ہیں۔عالمی گورننس انڈیکس میں بھارت کا نمبر 68 واں اور پاکستان کا 144  واں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 1971 میں پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش کی بھی 180 ملکوں کی اس درجہ بندی میں 84 ویں پوزیشن ہے۔ پاکستان سے رقبے اور آبادی میں چھوٹے ملک بنگلہ دیش کو 8 انتظامی یونٹس یا ڈویژنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں 34 اور ایران میں 31 صوبے ہیں۔

 گورننس کی عالمی رینکنگ کسی ملک کے اداروں میں ہم آہنگی، معاشی استحکام، کاروباری ماحول، کرپشن کی صورتحال اور اس ملک کے انفراسٹرکچر کی بنیاد پر جاری کی جاتی ہے، اب اس سوال کا جواب بھی جان لیتے ہیں کہ گڈ گورننس کا زیادہ صوبوں یا انتظامی یونٹس سے کیا تعلق ہے۔۔ تو جناب !۔گڈ گورننس انڈیکس میں سب سے پہلا نمبر جنوبی کوریا کا ہے، جس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان سے رقبے میں 8 گنا اور آبادی میں 4 گنا چھوٹے اس ملک میں نظامِ مملکت اچھے طریقے سے چلانے کیلئے 9 صوبے بنائے گئے ہیں۔ گڈ گورننس کی لسٹ میں دوسرا نمبر سوئٹزرلینڈ کا ہے۔جو جنوبی کوریا کی طرح ہی ترقی یافتہ ملک ہے۔جہاں لوگ بے حد خوشحال ہیں اور انصاف کا بول بالا ہے۔ اس ملک کا رقبہ پاکستان سے کم وبیش 19 گنا اور آبادی 24 گنا کم ہے۔ یہ ملک بھی انتظامی لحاظ سے 26 ریاستوں یا کنٹونز cantons پر مشتمل ہے۔۔اس کے علاوہ گڈ گورننس کی ٹاپ ٹین لسٹ میں شامل ڈنمارک،سویڈن، ایسٹونیا، جاپان، لگزمبرگ، جرمنی میں سے کسی بھی ملک کا رقبہ پاکستان کے قریب قریب ہے اور نہ ہی آبادی لیکن اس کے باوجود ان تمام ممالک میں انتظامی یونٹس، صوبے یا ریاستیں پاکستان سے زیادہ ہی ہیں۔

پنجاب کتنا بڑا ہے؟

اب ذرا پاکستان کے صوبوں کی آبادی اور رقبے کا دوسرے ملکوں سے بھی موازنہ کرلیں۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے۔صوبہ پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے زائد ہے، یعنی یہ  دنیا کے 206 ملکوں میں سے آبادی کے لحاظ سے 194 ملکوں سے بڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اکیلے صوبہ پنجاب کی آبادی  ترکی، ایران، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملکوں سے بھی زیادہ ہے۔دوسری جانب اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے یعنی  رقبے کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کے 120 ملکوں سے بڑا ہے۔

 یہی نہیں پاکستان کا صوبہ بلوچستان تو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 142 ملکوں سے بڑا ہے۔کیونکہ اس کا رقبہ 3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ یوں ملائیشیا، ناروے اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک بھی رقبے میں بلوچستان سے بہت چھوٹے ہیں۔ نئے صوبے نہ بننے کی وجہ سے پاکستان میں جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں کئی علاقے ترقی میں بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں، اس سلسلے میں پاکستان میں عام طور پر بلوچستان، جنوبی پنجاب اور وسطی سندھ کی مثالیں دی جاتی ہیں، جہاں ناصرف غربت ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے بلکہ وہاں بڑے شہروں جیسے ترقیاتی کام بھی نہیں ہوسکے۔ یوں انفراسٹرکچر نہ ہونے کہ وجہ سے یہاں کے لوگ ملک کے اعلیٰ اداروں میں اپنے حصے کی نوکریاں اور اپنے حصے کے معاشی فوائد بھی حاصل نہیں کرسکے۔یہ علاقے تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے معاملے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک پیچھے رہ گیا ہے اور بے پناہ وسائل کے باوجود ملک آنے والے کئی برسوں میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل نہیں ہوسکے گا۔

نئے صوبے بنانے پر اعتراضات کیا ہیں؟

  اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہے تو پاکستان میں نئے صوبے کیوں نہیں بن رہے۔ تو اس کا جواب ہے، سیاست اور مفاد پرستی۔مثال کے طور پر اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیا جائے تو ظاہر ہے بجٹ بھی تقسیم ہو جائے گا یعنی جنوبی حصے کے مالی انتظامات لاہور کے زیرِاثر نہیں رہیں گے جو کہ ظاہر ہے کچھ لوگوں کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں۔

پاکستان میں ہمیشہ سے ہی یہ تاثر رہا ہے کہ یہاں فیصلے قومی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر ذاتی ضرورت اور ذاتی مفاد کے تحت ہوتے ہیں اس لئے ملک میں جب جنوبی پنجاب صوبے کا مسئلہ اٹھایا گیا تو ساتھ ہی یہ آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئیں کہ جنوبی پنجاب نہیں بلکہ سرائیکی صوبہ بنایا جائے اور اس میں سرائیکی بولنے والے تمام علاقوں کو شامل کیا جائے، اس صوبے کے حامیوں نے نا صرف بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے تمام اضلاع کو اس میں شامل کرلیا بلکہ میانوالی، بھکر کے علاوہ خیبرپختونخوا کے اضلاع  لکی مروت اور ڈی آئی خان کو بھی اس صوبے کا حصہ بنانے کا مطالبہ کردیا۔یوں 23 اضلاع کے اس مجوزہ صوبے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ ایک تو اس سے لسانی تعصب بڑھے گا تو دوسری طرف یہ صوبہ تو ایک بار پھر چھوٹا یونٹ نہیں ہوگا اور بہت بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے اس کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔

اس صوبے پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس میں ریاست بہاولپور کو بھی شامل کردیا گیا ہے حالانکہ اس ریاست کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بہت مضبوط ہے۔اس سلسلے میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ابھی تک اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ 

یہاں آپ کو معاملے کو سمجھنے کیلئے ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیدیں کہ مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ میں غربت کی شرح 43 فیصد سے زائد ہے جبکہ پنجاب میں مجموعی طورپر یہ شرح 28 فیصد کے لگ بھگ ہے یعنی پنجاب کے جنوبی علاقوں میں کم و بیش آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔رپورٹ کے مطابق مجوزہ صوبہ موجودہ پنجاب کی کل آبادی کے 49 فیصد پر مشتمل ہوگا جبکہ اس کا رقبہ صوبے کا تقریباً 32 فیصد ہوگا۔ اس خطے کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ 2010 تک اس خطے کو مجموعی ترقیاتی بجٹ کا صرف 29 فیصد مل رہا تھا تاہم اس کو 2018 میں بڑھا کر 35 فیصد کردیا گیا، جو اب بھی کم ہی لگتا ہے۔

 نئے صوبے بنانے کے سلسلے میں کراچی کی مثال بھی دی جاتی ہے۔جس کو صوبہ بنانےکا مطالبہ بھی بہت پرانا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی پورے ملک کو وسائل مہیا کرتا ہے لیکن اس کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور پورے سندھ پر حکومت کرنے کا اختیار بھی دیہی سندھ کی جماعتوں کے پاس ہی رہا ہے کیونکہ شہری علاقوں کی نشستیں  تعداد میں کم ہیں ۔ اس لئے دیہی علاقوں کے ووٹ ملا کر بھی شہری علاقوں کی جماعتیں سندھ میں حکومت نہیں بنا سکتیں، یہ بھی شکوہ کیا جاتا ہے کہ  دیہی سندھ کے سیاستدان کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کیلئے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ کوٹہ سسٹم کیوجہ سے شہری علاقوں پر بھی دیہی سندھ کے افراد کو نوکریاں دے دی جاتی ہیں۔ کراچی کو صوبہ بنانے کی بات کو لسانی تعصب کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے۔ اس لئے کوئی بڑی جماعت اس مطالبے کو ماننے کو تیار نہیں۔

پنجاب اورسندھ کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی صوبے بنانے کی کافی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔اس سلسلے میں سب سے موثر اور بھرپور آواز صوبہ ہزارہ کی ہے۔ ہزارہ کو صوبہ نہ بنانے کی بڑی وجہ بھی سیاسی اور ذاتی مفاد  ہے۔ فاٹا یا قبائلی علاقہ جات کو ایک ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کیا جاچکا ہے لیکن صوبے کی بعض سیاسی قوتیں اس انضمام کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔

 دوسری طرف بلوچستان کو بھی پختونوں اور بلوچوں کی اکثریت والے دوعلاقوں میں تقسیم کرکے 2 صوبے بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی مبینہ طور پر ایک تعصب کی بنیاد پر رکھی جارہی ہے۔جس کو دوسرے اسٹیک ہولڈرز تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

ماہرین کے مطابق ملک میں زیادہ صوبے نہ بننے کی راہ میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق نا ہونا اور معاشی پیچیدگیاں بڑی رکاوٹ ہیں۔ پھر ملک کو نسلی اور لسانی تعصب ، سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر بداعتمادی اور قومی سطح کی لیڈرشپ کی کمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

پاکستان میں کتنے صوبے بن سکتے ہیں؟

 اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان میں کتنے صوبے بننا چاہییں۔تو اس کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ایک قومی کمیشن بنایا جائے، جس میں ناصرف ارکانِ پارلیمنٹ شامل ہوں بلکہ تمام متعلقہ شعبوں کے نمائندوں کو بھی کمیشن کا حصہ ہونا چاہیے۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی، رقبے اور انتظامی تقسیم کو دیکھیں تومختلف ماہرین کے مطابق پاکستان میں 14 سے 16 تک صوبے ہونا چاہییں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پنجاب کو دل بڑا کرنا ہوگا اور صوبے کو 5  یا 6 حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔جن میں سے ایک تجویز تو یہ ہے کہ راولپنڈی،گوجرانوالہ اور گجرات ڈویژن کو ملا کر ایک ہی صوبہ بنادیا جائے جبکہ دوسری صورت میں راولپنڈی ڈویژن کو الگ صوبہ پوٹھوہار بنا کر گوجرانوالہ اور گجرات ڈویژن پر مشتمل دوسرا صوبہ بنادیا جائے۔پنجاب میں فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن پر مشتمل ایک نئے صوبے کی بنیاد رکھنا بھی ضروری ہوچکا ہے۔ایسے ہی لاہور ڈویژن کو ساہیوال ڈویژن کے ضلع اوکاڑہ کے ساتھ ملا کر ایک صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ملتان، ڈی جی خان اور ساہیوال ڈویژن کے باقی اضلاع کو ملا کر صوبہ ملتان کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

 اسی طرح بہاولپور ریاست کی حیثیت کو بحال کرکے دوبارہ صوبے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ بہاولپورکی ریاست جو اس وقت بہاولپور ڈویژن کی شکل میں موجود ہے، یہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑی ڈویژن ہے جو 46 ہزارمربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ کے قریب ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہاولپور کو صوبہ بنانے کا مطالبہ زبان، نسل یا ثقافت کی بنیاد پر نہیں کیا جارہا ہے۔ بلکہ یہ سراسرانتظامی تقسیم ہے کیونکہ قیامِ پاکستان سے قبل بھی یہاں ایک ریاستی نظام نواب صادق عباسی کی قیادت میں نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا جارہا تھا۔ریاست بہاولپور پاکستان میں ضم ہونے والی سب سے بڑی ریاست تھی، جسے ایک معاہدے کے تحت 30 اپریل 1951 کو صوبے کا درجہ دیا گیا جو ون یونٹ کے باعث 1955 میں اس وقت کی حکومت نے واپس لے لیا۔ 1970 میں ون یونٹ تو ختم کردیا گیا لیکن صوبہ بہاولپور کی پرانی حیثیت بحال نہیں کی گئی۔

 اب اگر صوبہ سندھ کا رخ کریں تو کراچی ڈویژن کو واضح طور پر الگ صوبے کی حیثیت دی جاسکتی ہے۔جبکہ سکھر، لاڑکانہ اورشہید بے نظیرآباد جس کا پرانا نام نواب شاہ تھا کو ایک صوبے کا حصہ بنایا جاسکتا ہے، صوبہ سندھ کے تیسرے اور آخری مجوزہ صوبے میں حیدرآباد، بھنبھور، میرپور خاص کی ڈویژنز شامل کیا جا سکتا ہے۔۔ 

 صوبہ بلوچستان کو تقسیم کر کے دو الگ صوبوں کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، جن میں قلات، مکران، اور رخشاں ڈویژن پر مشتمل ایک صوبہ بنایا جا سکتا ہے جبکہ بلوچستان کی شمالی ڈویژنز کوئٹہ، ژوب، لورالائی، سبی،اور نصیرآباد مشتمل دوسرا صوبہ بن سکتا ہے۔

 صوبہ خیبر پختونخواہ میں  بھی تین مزید صوبوں کی گنجائش ہے، جن میں ایک صوبہ ڈی آئی خان اور بنوں ڈویژن کو ملا کر بنایا جاسکتا ہے جبکہ دوسرے صوبے میں کے پی کے کی وسطی ڈویژنز مردان، پشاور اور کوہاٹ کو شامل کر کے الگ صوبے کی حثیت دی جا سکتی ہے ۔ صوبے کی شمالی ڈویژنز ہزارہ اور مالاکنڈ کو ایک ساتھ ملا کر  ایک تیسرے صوبے کی بنیاد رکھی  جاسکتی ہے۔گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جاچکا ہے لیکن کچھ آئینی معاملات ابھی حل ہونا باقی ہیں۔

نئے صوبے بننے کی بات چل رہی ہے تو آخر میں آپ کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ صوبہ جنوبی پنجاب کیلئے ضروری اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے۔اس کا الگ سیکریٹریٹ بن رہا ہے، بیوروکریسی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل بھی جاری ہے تاہم ابھی تک اس کو صوبے کا درجہ دینے کیلئے بات قراردادوں اور آئینی ترامیم داخل کرانے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔کیونکہ نیا صوبہ بنانے کیلئے آئین میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہے جو گزشتہ کئی انتخابات سے کسی جماعت کو بھی نہیں مل رہی۔نئے صوبے کی بات مسلسل سیاست اور مفاد پرستی کی نظر ہورہی ہے۔!

 

 

 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu