جب بھی، جہاں کہیں بھی ہم وسطی یورپ کے ملک سوئٹزرلینڈ کا نام دیکھتے یا سنتے ہیں، تو ہمارا مائنڈ فوراََ برینڈڈ گھڑیوں، مزیدار، چاکلیٹس سوئس الپس اور ان تمام دلفریب مناظر کا خیال آتا ہے جو وہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اور اگر آپ پاکستانی ہیں تو سوئس بنکوں کا اضافی خیال بھی آپ کے مائںڈ میں ضرور آتا ہی ہو گا۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ ملک بیسویں صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں میں بھی غیرجانبدار رہا جب شاید ہی کسی دوسرے ملک نے ایسا کیا ہو۔اتنا نیوٹرل اور پرامن ملک لیکن اس کے ہر تیسرے شہری کے پاس آج اسلحہ موجود ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہاں شہری بھی پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون کو اور آئین تک کو چیلنج کر سکتے ہیں؟ سوئس لوگ اپنے ہی بچوں کا نام اپنی مرضی سے کیوں نہیں رکھ سکتے؟ ان سب دلچسپ سوالوں کے جواب اور چند مزید حقائق جو شاید آپ بھی نا جانتے ہوں ہماری، آج کی اس ویڈیو کا موضوع ہیں، تو چلئے شروع کرتے ہیں۔
سوئس ہتھیار زیادہ کیوں رکھتے ہیں؟
پچھلی پانچ صدیوں سے بظاہر پرامن اور کسی بھی تنازعے میں نا الجھنے والی سوئس قوم میں آتشی ہتھیار رکھنے کی شرح کافی زیادہ ہے۔سوئٹزرلینڈ کے ہر تیسرے شہری کے پاس کسی نا کسی شکل میں کوئی فائر Weapon ضرور موجود ہے۔لیکن دوستو دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکے باوجود یہاں جرائم کی شرح انتہائی کم یا نا ہونے کے برابر ہے،اس کا موازنہ اگر امریکہ سے کیا جائے یہاں گن وغیرہ سے ہلاکتوں کے تعداد percentage کے اعتبار سے دس گنا کم ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سوئس لوگوں کے پاس اتنے زیادہ ہتھیار کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کے مطابق ہر مرد شہری پر لازم ہے کہ وہ فوجی سروس کا عارضی طور پر حصہ بنے۔جب شہری اس سروس کو پورا کر لیتے ہیں تو وہ اپنے زیرِ استعمال گن یا پسٹل وغیرہ بھی ساتھ لے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی سوئس باشندوں حتی کے وہ غیر ملکی جو یہاں کے شہری نہیں ہوتے انھیں بھی ہتھیار رکھنے کا پرمٹ مل جاتا ہے۔
سوئس حکومت کی منظوری کے بغیر بچے کا نام کیوں نہیں رکھ سکتے؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سوئس قوانین کے مطابق آپ اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام اپنی مرضی سے بالکل نہیں رکھ سکتے، بلکہ آپ کو یہ نام رکھنے کے لئے متعلقہ حکام سے Approval لینا ہوتا ہے۔اس کے بعد ہی جا کر کہیں اس نام کو سرکاری ڈاکومنٹس میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس دلچسپ قانون کے مطابق سوئس حکومت ایسے کسی بھی نام کو مسترد کر سکتی جو بچے کے لئے نقصان دہ ہو یا پھر آگے چل کر اس کے شخصیت پر برا اثر ڈالے۔ہر پہلو سے جانچنے کے بعد ہی حکام کسی نام کو Approve کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس قانون کے اطلاق کا ایک دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سوئس موسیقار کرسٹائن لوٹر برگ (Christine Luter Berg) کو اپنی بیٹی کا نام تین بار تبدیل کرنا پڑا۔
کیا سوئس شہری بھی قانون سازی کر سکتے ہیں؟
سوئس قانون کے مطابق شہری پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کئے گئے کسی بھی قانون کو چیلنج کر سکتے ہیں، حتی کے شہری کسی آئینی ترمیم کے پراسس کا آغاز بھی کر سکتے ہیں۔اسکا طریقہ کار یوں ہے کہ اگر کوئی سوئس شہری یہ سمجھتا ہے کہ کوئی قانون سازی ٹھیک سے نہیں ہوئی تو شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے چیلنج کرسکے۔بس اس کے لئے اسے 100 دن کے اندر اندر اس قانون کے خلاف 50 ہزار Signature عام سوئس شہریوں سے حاصل کرنا ہونگے۔اسکے بعد پھر قومی سطح پر ایک ریفرنڈم یا ووٹنگ کروائی جائے گی۔اگر اکثریت کا ووٹ اس قانون سازی کی مخالفت میں ہو تو اس قانون کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔دوستو اسی طرح اگر کوئی سوئس شہری ملک کے آئین میں کوئی ترمیم کروانا چاہتا ہو یا کسی ترمیم کا نفاذ رکوانا چاہتا ہو تو اس کا پراسس بھی ایسا ہی ہے، بس یہاں 50 ہزار کی بجائے 1 لاکھ Signature درکار ہوتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کا ہیڈ آف سٹیٹ ایک نہیں
سوئٹزرلینڈ کے حکومتی معاملات کوئی ایک شخص نہیں چلاتا۔بلکہ یہ کام سات ممبرز پر مشتمل ایک ایگزیکٹو کونسل کے زمے ہے، اور یہی کونسل فیڈرل ایڈمنسٹریشن کی ذمہ دار ہوتی ہے، جس میں ہر شخص متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہوتا ہے۔ ہاں بہر حال ان سات میں سے ایک ممبر کو ایک سال کے لئے سوئس کنفیڈریشن کا صدر چنا جاتا ہے۔یاد رہے کہ اسے ہیڈ آف سٹیٹ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ پوری کونسل ہی ہیڈ آف سٹیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ہاں بہر حال یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پریزیڈنٹ “First Among Equals” یعنی برابر کے لوگوں میں پہلے نمبر پر ضرور موجود ہوتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی خاص اضافی اختیارات نہیں ہوتے۔
کیا سوئس زیادہ چاکلیٹ کھاتے ہیں؟
چاکلیٹ دنیا کے ہر کونے میں بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے، لیکن سوئس شہری فی کس سالانہ چاکلیٹ استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر ہیں۔ فوربز کے مطابق ایک سوئس شہری سالانہ تقریباََ 25 پاونڈز چاکلیٹ کھا جاتا ہے، اس لسٹ میں دوسرا نمبر امریکہ کا آتا ہے جہاں ہر شہری سالانہ 20 پاونڈ چاکلیٹ Consume کرتا ہے۔دوستو 1875 میں دنیا کا پہلا ملک چاکلیٹ (Milk Chocolate) بھی ایک سوئس شہری ڈینئل پیٹر(Daniel Peter) نے ایک جرمن سوئس شہری ہنری نیسلے(Henry Nestle) کے ساتھ ملکر تیار کیا۔مشہور امریکی چاکلیٹ کمپنی ہرشے کے آونر ملٹن ہرشے (Milton Hershey) کے آباو اجداد بھی سوئس ہی تھے، سوئس نا صرف خود شوق سے چاکلیٹ کھاتے ہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں اور سالانہ تقریبا” ایک ارب ڈالرز کی چاکلیٹ ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ میں جھیلیں کتنی ہیں؟
اگر آپ سوئٹزر لینڈ میں کہیں بھی موجود ہوں اور کسی بھی سمت چل پڑیں تو زیادہ سے زیادہ دس میل فاصلے میں کسی چھوٹی یا بڑی جھیل سے پالا ضرور پڑے گا۔ 41 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبے پر محیط اس ملک میں ہزاروں چھوٹی بڑی جھیلیں موجود ہیں، جو اس ملک کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ یہ ملک رقبے میں تو انتہائی چھوٹا ہے لیکن الپائن نیشن کے نام سے مشہور سوئٹزرلینڈ میں کسی بھی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ بلند پہاڑ اور پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ یہاں پاکستان اور نیپال کی طرح بہت زیادہ اونچے پہاڑ تو نہیں لیکن سطح سمندر سے 4 ہزار میٹر بلند پہاڑوں کی تعداد 48 ہے۔سوئٹزرلینڈ کی خوبصورتی ہی کی وجہ سے 8 سو سے زائد بالی وڈ اور بے شمار ہالی وڈ موویز کو سوئٹزر لینڈ میں شوٹ کیا جا چکا ہے۔
سوئٹزر لینڈ میں خود کشی کے لئے مدد لی جا سکتی ہے
سوئس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کا مائینڈ بن رہا ہو کہ اسے خود کشی کر لینی چاہیے، یا اگر وہ شخص مستقل طور پر اپنی جان لینے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہو تو وہ کسی فزیشن یا ڈاکٹر سے مدد لے سکتا ہے۔ ڈاکٹر اسے کوئی میڈیسن تجویز کرے گا جسکے استعمال سے وہ شخص اپنی جان لے سکے گا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے یہ میڈیسن خود ہی استعمال کرنا ہوگی۔خود کشی کی اس قسم کو Physician Assisted Suicide کہا جاتا ہے۔اس مقصد کے لئے سوئٹزرلینڈ کا رخ کرنے والے لوگوں کو Suicide Tourists کہا جاتا ہے۔ جرمنی، لگزمبرگ، اٹلی، نیوزی لینڈ، کینیڈا، اور امریکہ کی کچھ ریاستوں میں بھی ایسا کرنا لیگل ہے۔
سوئس جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں
سوئٹزرلینڈ میں جانوروں کے حقوق کا بھی بھرپور خیال رکھا جاتا ہے، سوئس قانون کے مطابق اگر آپ یہاں کچھ مخصوص جانور رکھنا چاہتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ کم از کم دو یعنی ایک Pair خریدیں، تا کہ آپ کی غیر موجودگی میں وہ ایک دوسرے کو کمپنی دے سکیں۔اس کے علاوہ پالتو جانور رکھنے کے شوقین افراد کے لئے باقاعدہ کلاسز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں ان جانوروں کو کھانا کھلانے اور ان کا خیال رکھنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سوئٹزر لینڈ میں کتا رکھنا کے لئے حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے، اور اس کی رجسٹریشن بھی کروانی پڑتی ہے۔ یہاں ایک مرتبہ ایک مچھیرے پر صرف اس لئے مقدمہ ہو گیا کہ اس نے مچھلی کو پکڑنے میں زیادہ وقت کیوں لگایا، جس سے مچھلی کو تکلیف برداشت کرنا پڑی۔
سوئس پرامن کیوں ہیں؟
سوئٹزر لینڈ کی پرامن اور غیر جانبدار رہنے کی پالیسی پر ابتدائی پیش رفت سولہویں صدی میں ہوئی، جب 1515 عیسویں میں سوئس کنفیڈریشن کو بیٹل آف میریگنانو (Battle of Marignano) میں فرانس کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شکست کے بعد، کنفیڈریشن نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ترک کر دیا اور اپنے تحفظ اور مفاد کی خاطر مستقبل میں تصادم سے ہر صورت بچنے کی پالیسی اپنا لی۔اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے آخر میں فرانسیی جنگجو نپولین نے سوئٹزرلینڈ پر حملہ کر کے اسے اپنی ایک ماتحت سٹیٹ بنا لیا تھا، لیکن بیٹل آف واٹرلو (Battle of Waterloo) میں نپولئین کی شکست کے بعد بڑی یورپی طاقتوں کو لگا سوئٹزر لینڈ کا نیوٹرل رہنا ہی ان کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ سوئٹزرلینڈ ان ریاستوں کے درمیان ایک بفر زون کا کام سکتا ہے۔سوئٹرزلینڈ نے اپنی نیوٹرالٹی جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران بھی قائم رکھی۔ہاں البتہ کسی بھی جنگی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سوئٹزر لینڈ نے تیاری ضرور کر رکھی ہے، یہاں بڑی تعداد بنکرز وغیرہ بنائے گئے ہیں، جہاں شہریوں کے لے خوراک اور دوسری سہولیات کی دستیابی کو بھی بنایا گیا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک پرامن رہنے کی کوششوں کی وجہ سے ہی شاید کئی بڑی عالمی تنظیموں کے ہیڈکواٹرز بھی سوئٹزر لینڈ میں ہی ہیں جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ اکانومک فورم، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ریڈ کراس کا ہیڈ کواٹر بھی جینوا میں ہی ہے جبکہ اس تنظیم کے بانی ایک سوئس اور فرنچ شہری تھے۔دونوں کو مشترکہ طور پر 1901 میں پہلا نوبیل پیس پرائز ملا۔اس کے علاوہ فیفا کا ہیڈ کواٹر بھی سوئٹزرلینڈ میں ہی ہے۔صدیوں سے اپنی اس نیوٹرالٹی پالیسی پر گامزن سوئٹزرلینڈ کبھی نیٹو یا یورپئین یونیین کا حصہ ممبر نہیں بنا۔
چند مزید دلچسپ حقائق
سوئٹزرلینڈ ایک مہنگا ملک ہے لیکن یہاں اس مہنگائی کے بدلے میں آپ کو ویلیو ضرور ملتی ہے، یہاں ورکرز کو اچھا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے، بالخصوص یہاں ٹیچنگ دوسرے تمام ممالک کے مقابلے میں Highly Paid جاب ہے، کچھ شعبوں کے سوئس ٹیچرز سالانہ ایک لاکھ ڈالرز تک بھی کما لیتے ہے، بے روزگاری کی شرح یہاں پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔سوئٹزرلینڈ خوش ترین ممالک کی لسٹ میں فن لینڈ اور ڈنمارک کے بعد تیسرے نمبر پر ہے جبکہ Average Life Expectancy میں سوئس شہریوں کا نمبر دنیا بھر میں چوتھا ہے۔اس کی کل آبادی 90 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔اگر آپ سوئس شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو آپ کو یہاں دس سال گزارنے کے ساتھ ساتھ چار قومی زبانوں میں سے ایک زبان بھی سیکھنی ہو گی اور ان چار میں انگلش شامل نہیں ہے۔اس لحاظ سے سوئس شہریت حاصل کرنا کسی حد تک مشکل ضرور ہے۔
یورپ کا بلندترین ریلوے سٹییشن سوئس الپس میں ہی واقع ہے جس جو سطح سمندر سے 3500 میڑ کی بلندی پر واقع ہے۔سوئٹزر لینڈ کے بارڈر جرمنی، فرانس، اٹلی، آسٹریا اور لکٹن سٹائن(Liechtenstein) سے ملتے ہیں، اور یہ غیر جانبدار بھی رہے ہیں، لیکن تین مواقعوں پر سوئس آرمی ہمسایہ ریاست لکٹن سٹائن (Liechtenstein) کو غلطی سے INVADE کر چکی ہے، جس کے نتائج بالکل بھی خطرناک نہیں تھے، اس دلچسپ invasion کا آخری واقعہ 2007 میں پیش آیا تھا۔
Rolex, Tag Heuer, Omega اور Zenith وغیرہ سوئس گھڑیوں کے برانڈز ہیں، جبکہ سوئٹزر لینڈ کی سب سے مشہور پراڈکٹ سوئس آرمی نائف ہے، اس پاکٹ سائز Multi Purpose Tool پر ایک تفصیلی ویڈیو ہم کر چکے ہیں، آپ آئی بٹن پر کلک کر کے یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔2022 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سوئس دنیا میں سب سے زیادہ Innovative قوم ہیں جبکہ امریکہ Global Innovation Index میں دوسرے نمبر پر ہے۔
انتہائی سخت پرائیویسی اور Low Financial Risk کی وجہ سے سوئس بنک بلیک منی(Black Money) کو چھپانے کے لئے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے وہ افراد جو اپنے پیسے کو Justify نہیں کر سکتے یا انکا سورس نہیں بتا سکتے اپنے پیسے سوئس بنکوں میں ہی جمع کرواتے ہیں۔
لیجنڈری کامیڈین اداکار چارلی چیپلن نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال سوئٹزر لینڈ میں ہی گزارے اور ان کے وفات کے بعد انھیں یہیں دفنایا گیا، ان کی لاش کا سوئس مکینکس کے ایک گروپ نے چوری کر کے فیملی سے پیسے بٹورنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، لاش کو بازیافت کر لئے جانے کے بعد دوبارہ یہیں دفنایا گیا ہے۔