Home Uncategorized نگران حکومت کیسے بنتی ہے؟ اختیارات کیا ہوتے ہیں؟

نگران حکومت کیسے بنتی ہے؟ اختیارات کیا ہوتے ہیں؟

by Adnan Shafiq
0 comment

پاکستان میں انتخابات سے پہلے نگران حکومت کی کافی گونج رہتی ہے، الیکشنز کا صاف شفاف انعقاد کرانا اس حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں نگران سیٹ اپ کی تقرری پر بھی سیاسی ماحول کافی گرم ہی رہتا ہے۔۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نگران حکومت اتنی اہم کیوں ہے۔ آئین میں نگران حکومت کے کون، کون سے اختیارات درج ہیں؟ پاکستان کے علاوہ دنیا کے کتنے ممالک میں الیکشنز سے پہلے نگران سیٹ اپ بنایا جاتا ہے،

نگران سیٹ اپ کیا ہوتا ہے؟

 جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ نگران حکومت الیکشن کی نگرانی کیلئے بنائی جاتی ہے لیکن یہ نگران سیٹ اپ کتنا اہم ہے اور کیسے منتخب کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی نگران حکومتیں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت بنتی ہیں۔ جس کے مطابق اگر اسمبلی تحلیل کردی جائے یا وہ اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوجائے تودونوں صورتوں کئیر ٹیکر سیٹ اپ لایا جائے گا۔وفاق میں قائدایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف دونوں نگران وزیراعظم کیلئے زیادہ سے زیادہ تین، تین نام پیش کرتے ہیں۔ دونوں میں کسی ایک نام پر اتفاق رائے کی صورت میں صدرِمملکت نگران وزیراعظم کا تقرر کر دیتا ہے۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ ایک نئی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ جس میں تحلیل شدہ اسمبلی، سینیٹ یا دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 4، 4 ارکان شامل ہوتے ہیں، جنہیں قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف مقرر کرتے ہیں۔ اس کمیٹی کو دونوں جانب سے پہلے سے پیش کردہ 6 میں سے ہی دو، دو یعنی چار نام دئیے جاتے ہیں۔ان میں نئے نام شامل نہیں کئے جاتے۔۔کمیٹی نے 3 روز میں کسی بھی ایک نام پر اتفاق کرنا ہوتا ہے، اتفاق رائے کی صورت میں وزیراعظم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔لیکن یہاں بھی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جاتا ہے۔جو دو دن میں پارلیمانی کمیٹی کو پیش کئے گئے ناموں میں سے ہی کسی ایک نام کو فائنل کر کے نگران وزیراعظم کا اعلان کردیتا ہے۔یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نگران حکومت 8 سے 9 دن میں بن ہی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ صدر ناصرف نگران وزیراعظم کی تقرری کی رسمی منظوری دیتا ہے بلکہ وہ وفاق میں 14 دن کے اندر کابینہ کا انتخاب بھی کرتا ہے۔اس نگران کابینہ کا کوئی بھی رکن آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوتا۔یہ بھی یاد رہے کہ جس وقت تک وقت تک نئی تقرری نہیں ہو جاتی تحلیل شدہ اسمبلی کا قائدِ ایوان ہی وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہتا ہے۔

 صوبوں میں وزیراعلی کی تقرری سے لیکر کابینہ کے انتخاب تک کا پراسس بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ وفاق میں ہوتا ہے۔بس یہاں صدر والی زمہ داریاں گورنر نبھاتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کی کشمیر اور گلگت بلتستان میں الیکشن سے پہلے نگران حکومت کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا ہے۔

 یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسمبلی ختم ہو بھی جائے تو الیکشنر کے بعد جب  تک نئی اسمبلی نئے سپیکر کا انتخاب نہیں کر لیتی۔ اس وقت تک سپیکر اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے، نئے ارکان سے حلف لیں گے اور اس کے بعد اسمبلی نئے سپیکر کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔یہاں ایک  اور بات قابلِ ذکر ہے کہ اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوں تو نگران سیٹ اپ 60 دن کیلئے ہو گا تاہم اسمبلیاں کسی بھی وقت تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن میں الیکشن کرانا لازمی ہوتے ہیں۔آئین میں نگران حکومت کی مدت بڑھانے کا کوئی طریقہ کار درج نہیں۔

نگران حکومت کے اختیارات کیا ہیں؟

نگران حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری انتخابات کاانعقاد ہے۔ وہ روزمرہ کے امورِ سلطنت چلانے میں مکمل اختیار رکھتی ہے لیکن  اسے پالیسی فیصلہ سازی یا policy decision  لینے کا اختیار نہیں۔ دوسری جانب چند ماہرینِ قوانین کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں نگران حکومت وفاق میں صدر اور صوبے میں گورنر سے مشاورت کے بعد عارضی پالیسی فیصلہ سازی کرسکتی ہے۔ جیسا کہ خارجہ پالیسی اور نظامِ مملکت سے متعلق امور وغیرہ۔اسمبلی تحلیل ہو جائے اور بجٹ پیش کرنا ضروری ہو تو نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 86 کے تحت زیادہ سے زیادہ چار ماہ کے لئے اخراجات کی منظوری دے سکتی ہے۔ دوسری جانب نگران حکومت بیرونی قرضے حاصل کرنے کی مجاز ہوتی ہے لیکن وہ اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا سکتی ہے، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ آرڈیننس کے ذریعے نئے ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں، جن کی منظوری نئی اسمبلی سے لینا لازمی ہوگی، ورنہ وہ ٹیکسز ختم ہو جائیں گے۔نگران حکومت الیکشن کمیشن کی سفارش اور منظوری کے بغیر سرکاری افسروں اور کسی بھی گریڈ کے اہلکار کے تقررو تبادلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے مطابق نگران حکومت کا اپنے فیصلوں میں غیر جانبدار رہنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ نگران حکومت کے ارکان کو کسی قسم کی مراعات تاحیات نہیں ملتیں۔یہاں تک کہ نگران وزیرِاعظم کے پاس بھی نگران حکومت کی میعاد ختم ہونے پر کوئی مراعات نہیں ہوتیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ پاکستان میں اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں یا وہ اپنی مقررہ مدت مکمل کرکے تحلیل ہو جائیں، ان دونوں صورتوں میں الیکشن کے بعد بننے والی اسمبلی پانچ سال کیلئے ہی منتخب ہوتی ہے۔

نگران حکومت کونسے ممالک میں قائم کی جاتی ہے؟

 آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ دنیا کے ہر ملک میں الیکشن سے پہلے نگران حکومت قائم نہیں کی جاتی۔ دنیا میں پاکستان کے علاوہ ایسا سیٹ اپ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور ہالینڈ میں بھی مختلف مدتوں کیلئے قائم کیا جاتا ہے، جس کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کرانا ہی ہوتی ہے۔ یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نگران حکومت صرف ان چند ملکوں میں ہی قائم ہوتی ہے، جہاں پارلیمانی نظامِ حکومت رائج ہے۔ پاکستان میں تو روایتی طورپر سابق حکومت کے کسی رکن کو نگران سیٹ اپ میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن کئی ملکوں میں حکومت میں شامل افراد کو ہی نگران حکومت کا حصہ بھی بنا دیا جاتا ہے، جیسا کہ آسٹریلیا میں ہوتا کہ وزیراعظم خود ہی الیکشن سے پہلے حکومت کو کیئر ٹیکر موڈ  Care taker mode میں لے جاتے ہیں۔۔ یعنی جو حکومت کام کررہی ہوتی ہے، اس کے تمام یا کچھ ارکان صرف روزمرہ کے امور کیلئے اپنے اختیارات کا محدود استعمال کرتے ہیں۔ تاہم حکومت کے انتہائی متنازع ہونے اور غیرمعمولی حالات کی وجہ سے الگ سے بھی نگران حکومت قائم کی جاتی ہے، جیسا کہ 1975 میں آئینی بحران کے دوران کیا گیا، جہاں گورنر جنرل نے اس شرط پر نگران حکومت قائم کی کہ وہ جلد از جلد انتخابات کرا دے گی۔

نیوزی لینڈ کی بات کریں تو یہاں کا نظام تھوڑا سا مختلف ہے۔ نیوزی لینڈ میں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرلیں۔یا وقت سے پہلے تحلیل کردی جائیں یا پھر حکومت پارلیمنٹ یا مقننہ کا اعتماد کھودے تو نگران سیٹ اپ قائم کردیا جاتا ہے۔ اس کی مدت انتہائی مختصر یعنی چند گھنٹوں کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔جو اس وقت تک رہتی ہے جب تک نئی حکومت قائم نہیں ہوجاتی۔ نیوزی لینڈ میں نگران حکومت کسی قانون سے زیادہ روایات کی پابند ہوتی ہے۔ جو مختلف ممالک کے نظام سے اخذ کی گئی ہیں۔ نیوزی لینڈ میں 1984 اور 1993 کے جنرل الیکشنز کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ نگران حکومت کیلئے قانون سازی کی جائے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں بہت تھوڑا کام کیا گیا ہے اور بات زیادہ تر روایات  پر ہی چل رہی ہے۔

کینیڈا میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد حکومت کے آنے تک نئی حکومت کے قیام تک وزیراعظم اور صوبائی حکومتوں کے سربراہ یا پریمیئر اپنی حکومتوں کو۔۔کیئر ٹیکر موڈ۔۔میں لے جاتے ہیں۔یعنی وہ صرف روزمرہ کے امور چلانے اور انتخابات کا شفاف انداز میں انعقاد کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔وہ قومی پالیسی سے متعلق کوئی بھی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتے۔حیران کن طور پر کینیڈا میں نگران حکومت کے امور پر کوئی قانون تو موجود نہیں لیکن نیوزی لینڈ کی طرح یہاں بھی روایات بہت واضح ہیں، جن پر ہر نگران حکومت عمل کرتی ہے اور الیکشن کرانے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے امور سرانجام دیتی ہے۔۔

دوسری جانب ہالینڈ میں ایک حکومت کے خاتمے سے دوسری حکومت کے قیام تک نگران حکومت قائم کی جاتی ہے۔جسے ڈی مشنری کیبنٹ Demissionary cabinet کہا جاتا ہے۔اس  نگران حکومت کی مدت معینہ یا مقرر نہیں ہوتی اور یہ ایک بار 1977 میں 9 ماہ تک بھی قائم رہی تھی۔

یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں الیکشن سے پہلے کسی قسم کی عبوری یا نگران حکومت کا کوئی تصورنہیں، الیکشن کی تاریخ آنے کے بعد حکومت کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتی، یہاں ایسے اقدامات نہیں کئے جاتے جن سے کسی ایک پارٹی کو فائدہ ہو یا الیکشن کی غیرجانبداری پرحرف آئے۔بھارت میں اکثر وزرا حکومت ختم ہوتے ہی اپنی وزارتیں چھوڑ کر الیکشن کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بااختیارہوتا ہے اور اگر وہ سمجھے کہ کوئی حکومتی رکن الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اسے تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد حکومت الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر معمولی سے معمولی تقرری یا تبادلہ بھی نہیں کرسکتی۔ بھارت میں اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے اور عموماً اسی ٹرم میں الیکشن کا عمل بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں 2008 تک نگران حکومتیں بنائی جاتی تھیں۔پہلی نگران حکومت 1991  میں بنائی گئی۔بنگلہ دیش میں نگران وزیراعظم کو چیف ایڈوائزر کا نام دیا گیا تھا اور اب تک صرف 5 بار چیف ایڈوائزر بنایا گیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے نگران حکومت کے قیام کی آئینی شق 15 ویں ترمیم کرکے ختم کردی ہے۔

مختلف ملکوں میں نگران حکومتوں کہ ذمہ داریوں پر قانون سازی کو دیکھیں تو پاکستان سب سے آگے نظر آتا ہے، ورنہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں تو نگران سیٹ اپ زیادہ تر روایات کے آسرے ہی چلتا آرہا ہے، ایک اور بات حیران کن ہے کہ پاکستان نے تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کی جبکہ کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا  تو آج بھی تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہی کام کررہے ہیں لیکن برطانیہ میں نگران حکومتوں کا ایسا کوئی سیٹ اپ نہیں۔ دوسری جانب کامن ویلتھ کے دوسرے  رکن ممالک میں بھی نگران حکومتوں کا نظام نظر نہیں آتا۔ بنیادی طور پر 1973 کے آئین میں نگران حکومت کی کوئی شق موجود نہیں تھی۔ تاہم 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے شدید الزامات کے بعد نگران حکومت کے قیام  کے حق میں کافی نعرے لگے۔ ضیاالحق نے 1985 میں آر سی او یا ریوائیول آف کانسٹی ٹیوشن آرڈر Revival of Constitution of 1973 Order کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کے ذریعے آئین میں نگران حکومت کے قیام کی ترمیم کی، جسے 1985میں ہونے والی آٹھویں ترمیم میں آرٹیکل 48 فائیو بی کے تحت تحفظٖ دیا گیا۔ 1988 میں فوجی آمر ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کردیا اور صاحبزادہ یعقوب خان کی سربراہی میں نگران کابینہ بنادی۔جس کا کوئی وزیراعظم نہیں تھا یعنی صاحبزادہ یعقوب خان پہلے نگران وزیراعظم نہیں تھے۔ضیاءالحق الیکشن کرانے سے پہلے طیارہ حادثہ میں چل بسے تو 1988 کے انتخابات کی نگرانی اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کی۔ملک میں پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی تھے، جنہیں بے نظیر بھٹو کی حکومت 1990 میں برطرف کرنے کے بعد ذمہ داری سونپی گئی۔اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی اور ملک معراج خالد نگران وزیراعظم رہے تا ہم   2002 کے انتخاب فوجی آمر پرویز مشرف  کی نگرانی میں ہوئے۔ آئین میں آرٹیکل 224 کا اضافہ لیگل فریم ورک آرڈر Legal framework order کے  ذریعے کیا گیا۔ جس کی توثیق  آئین میں 17 ویں ترمیم کے تحت کی گئی۔2007 میں الیکشن سے پہلے محمد میاں سومرو کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ پاکستان میں پہلے صرف صدرہی نگران وزیراعظم کا تقرر کرتا تھا تاہم 2010 میں  18 ویں ترمیم کے تحت مزید ترامیم کرکے یہ اختیار پارلیمنٹ سے الیکشن کمیشن تک لے جا یا گیا۔ پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم، جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کا انتخاب الیکشن کمیشن نے ہی کیا تھا۔ دوسری جانب 2018 کے الیکشن سے پہلے  قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف میں اتفاق رائے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو نگران وزیراعظم بنادیا گیا تھا۔

 نگران حکومتیں الیکشن کے صاف شفاف اور غیرجانبدار انعقاد کیلئے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ کسی صورت بھی غیرجانبدار اور دھاندلی سے پاک الیکشنز کی ضامن نہیں، اکثر اوقات الیکشنز کے بعد دھاندلی کا ہی شور مچا ہے، ایسی صورتحال میں نگران حکومتوں کا قیام صرف ایک آئینی اور قانونی تقاضا ہی رہ جاتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu