یہ چائینییز صوبے ہوبے(Hubei) میں دریائے ینگزی (Yangtze) پر تعمیر کیا گیا پاور پروڈکشن کی صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تھری گارجئیس ہے۔اس کی مین دیوار کی لمبائی 2.3 کلو میٹر ہے جبکہ اونچائی 185 میٹر ہے۔اس کی انسٹالڈ پیداوری صلاحیت دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 22 ہزار 500 میگا واٹ ہے، جو تربیلا ڈیم کے چار گنا جبکہ ہوور ڈیم کے گیارہ گنا سے بھی زیادہ ہے یہ کتنا بڑا ڈیم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کی وجہ سے زمین کی اپنے محور کے گرد رفتار میں بھی انتہائی معمولی سی کمی ہو گئی۔انجنئیرنگ کا یہ شاہکار چائینہ نے کیسے تعمیر کیا اس کے بارے میں جاننے سے پہلے اس کی تاریخی پس مننظر کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
ڈیم کا تاریخی پس منظر
دوستو یہ دریائے ینگزی ہے، جو Tibet سے نکلتا ہے اور شنگھائی کے ساحل پر جا کر ایسٹ چائینہ سی(East China Sea) میں گرتا ہے۔لمبائی کے اعتبار سے یہ دریائے نیل(Nile River) اور دریائے ایماازان(Amazon River) کے بعد دنیا کا تیسرا، جبکہ ایشیا کا سب سے لمبا دریا ہے۔یہ دریا تاریخی لحاظ سے Chinese کے لئے انتہائی اہم رہا ہے، لیکن اس میں آنے والے سیلاب ہمیشہ چین میں تباہی کا پیغام لیکر آتے رہے ہیں۔
لہذا اس تباہی کے خاتمے کے لئے آج سے ایک سو سال قبل 1919 میں چائینہ کے صدر سن یات سین (Sun yat Sen) نے یہ آئیڈیا اپنی کتاب The International Development of China میں دیا کہ اس دریا پر ایک بڑا ڈیم تعمیر کیا جائے۔جس کے ذریعے سیلاب کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداور بھی کی جا سکے۔ابتدائی طور پر ان کے اس آئیڈیا پر کوئی کام نہیں ہوا۔لیکن پھر 1931 میں وہی ہوا جو یہاں صدیوں سے تواتر کے ساتھ ہوتا چلا آرہا تھا۔ایک نئے سیلاب نے زیریں دریائے ینگزی کے ریجن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی جان سے چلے گئے، یہ سیلاب انسانی تاریخ کے پانچ تباہ کن ترین سیلابوں میں سے ایک تھا۔
اس تباہ کن صورتحال سے نمٹنے کے لئے چین کے نیشنلسٹ لیڈر چیانگ کائی شیک(Chiang Kaishek) کے دور میں 1932 میں ڈیم کے منصوبے پر ابتدائی کام شروع ہوا۔لیکن یہ منصوبہ ادھورا ہی رہ گیا کیونکہ 1937 میں جاپان نے چین پر حملہ کر دیا، جاپان کا یہ حملہ قبضے میں تبدیل ہو گیا۔ اس منصوبے پر کام کچھ عرصے کے لئے رکا رہا اور پھر 1944 میں چائینہ کی حکومت نے فیزبلیٹی سٹدی (Feasibility Study) کے لئے ایک امریکی انجنئیر کو ہائیر کیا۔انہوں نے اپنا کام 1946 میں ختم کیا اور ڈیم کی تعمیر کا ایک پروپوزل تیار کیا، اپنے پروپوزل میں انجنئیر نے یہ بھی تجویز کیا کہ ڈیم کو لاک سسٹم کے تحت تعمیر کیا جائے۔ لیکن چین میں ہونے والی سول وار نے منصوبے کو ایک مرتبہ پھر روک دیا۔سول وار کے خاتمے پر 1949 میں نئے کمیونسٹ لیڈر ماوزے دنگ نے چین کی حکومت سنبھال لی۔اس کی بعد پھر 1954 میں ینگزی دریا کے ایک اور سیلاب نے وہان(Wuhan) اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تباہی پھیر ڈالی، دو کروڑ کے لگ بھگ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ماوزے دنگ ڈیم کے حق میں تو تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ ایک میگا ڈیم سے پہلے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے دریائے ینگزی کے معاون دریاوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کرنا زیادہ بہتر ہے۔اس کے بعد پھر اس ڈیم کی تعمیر پر کام شروع نا ہو سکا، ماوّ کے انتقال کے بعد 1980 کی دہائی میں ڈیم کی تعمیر کا آئیڈیا ایک بار ابھر کر سامنے آیا۔چائینیز حکومت نے فییزبلٹی سٹڈی کے لئے نئی ٹیم تیار کروائی اور ایک نیا پروپوزل بھی تیار کیا گیا۔1992 میں بالآخر ڈیم کے پروپوزل کو نیشنل پیپلز کانگریس سے بھی منظوری مل گئی۔دوستو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس ڈیم پر اعتراضات بھی کئے جاتے رہے ہیں یہی وجہ سے کہ نیشنل پیپلز کانگریس میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران ایک تہائی ممبرز نے یا تو ڈیم کی مخالفت میں ووٹ دیا یا پھر غیر حاضر رہے۔
تھری گارجز ڈیم کی تعمیر
پروپوزل کی منظوری کے بعد ڈیم کی تعمیر کے کام کی ابتدائی تیاریوں آغاز 1993 میں شروع کر دیا گیا تھا۔اس ڈیم کی تعمیر کی ذمہ داری چائینیر کمپنی The China Three Gorges Corporation کو ملی۔ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز یعنی پراجیکٹ کا سرکاری سطح پر افتتاح 1994 میں ہوا اور اس کنسٹرکش کو دو فیزز (Phases) یا مرحلوں میں مکمل کیا گیا۔
پہلے مرحلے میں دریا کی ایک سائیڈ کے پانی کے بہائو کو روک کر ایک عارضی دیوار تعمیر کی گئی، تا کہ اس دیوار والے حصے کے اندر خشکی والے حصے میں ڈیم کی مین دیوار کی تعمیر شروع کی جا سکے، اور اس دیوار کے ساتھ سے دریا کے باقی حصے می ں سے پانی کا بہاو بھی جاری رہے اور جہاز رانی بھی ہوتی رہے۔ عارضی دیوار کی تعمیر کے بعد دریا ڈیم کی مین وال کے پہلے حصے کو تعمیر کیا گیا، اس دوران بحری جہازوں کی آمدورفت کے لئے Two Way شپ لاکس کے لئے زمین کی کھدائی اور تعمیر بھی کی گئی۔ پہلے مرحلے کا کام 2003 میں مکمل ہوا، سات سات سو میگاواٹ کی 14 ٹربائنز کو بھی اسی مرحلے میں انسٹال کیا گیا۔پہلے مرحلے کی تکمیل پر بلاسٹنگ کر کے عارضی دیوار کو گرا دیا گیا اور پانی کو اب مین وال سے بہاو اور ٹیسٹنگ کے عمل کو شروع کیا گیا، ڈیم کے پہلےمرحلے میں میں لگائی گئی ایک ٹربائن سے 2003 میں ہی بجلی کی پیداوار بھی شروع ہو چکی تھی۔پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد اب دوسرے مرحلے کا آغاز ہونا تھا۔
دوسرے مرحلے میں دریا کے بہائو کی دوسری طرف پہلے مرحلے والی تعمیر شدہ دیوار کے ساتھ ایک عارضی دیوار تعمیر کی گئی اور مین وال کے دوسرے حصے پر کام کا آغاز ہو۔اس مرحلے کی تکمیل 2006 میں مکمل ہوئی۔مین وال کے اس حصے میں بھی سات سات سو میگا واٹ کی 12 مزید ٹربائینز کو انسٹال کیا گیا۔اس طرح دیوار کے ساتھ کل ٹربائینز کی تعداد 26 ہو گئی۔اس کے علاوہ مزید 8 ٹربائینز کو ڈیم کی دیوار سے ہٹ کر زیرِ زمین انسٹال کیا گیا۔2006 میں مین وال کی کنسٹرکشن مکمل ہوتے وقت پہلے مرحلے کے 14 ٹربائنز پوری طرح فعال ہوچکی تھیں اور پوری صلاحیت پر بجلی کی پیداوار بھی ہو رہی تھی۔ اب مرحلہ تھا ڈیم میں پانی بھرنے کا، اس سٹیج میں ڈیم کو پانی سے بھرنا شروع کیا گیا، 2007 تک ڈیم میں پانی کی کا لیول 156 میٹر تک پہنچ چکا تھا۔اور دوسرے مرحلے کی ٹربائنز بھی ایک ایک کر کے فعال ہوتی جا رہی تھیں۔
2009 میں ٹیسٹنگ کے آخری مرحلے کا آغاز ہوا، ڈیم کو اس کی Maximum Height 175 میٹر تک پانی سے بھرنے کا آغاز کیا گیا۔2010 میں ڈیم پوری طرح بھر چکا تھا۔اب ڈیم کی ٹیسٹنگ کے تمام مراحل کو انتہائی باریک بینی سے پرکھا گیا۔اس مرحلے میں شپ لاکس، سپل ویز، اور تمام ٹربائنز کو اچھی طرح ٹیسٹ کیا گیا۔2012 میں تمام یونٹس کے پوری طرح فعال ہو جانے پر ڈیم اپنی پوری صلاحیت پر بجلی پیدا کرنا شروع ہو چکا تھا۔
تھری گارجز ڈیم کی پیداواری صلاحیت
ڈیم میں انسٹال کی گئی ٹربائینز فرنچ، جرمن اور چائنیز کمپنیز نے تیار کی ہیں، ان کی کل تعداد 34 ہے۔ جن میں 14 پہلے مرحلے میں انسٹال کی گئیں،اور ہر ایک ٹربائیں سے جڑے جنریٹر کی پیدا وری صلاحیت 700 میگا واٹ ہے۔ دوسرے مرحلے میں دیوار کے ساتھ انسٹال کی گئی 12 ٹربائینز میں سے ہر ایک پیداواری صلاحیت 700 میگا واٹ ہے۔جبکہ انڈرگراوںڈ باقی 8 میں سے 6 کی پیدوارای سات سات سو میگا واٹ اور 2 کی پچاس پچاس میگا واٹ ہے۔ اس طرح ڈیم کی کل Electricity Generation Capacity بائیس ہزار پانچ سو میگا واٹ ہو جاتی ہے۔یہ دنیا میں کسی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، اس کے بعد دنیا میں کسی بھی ڈیم کی یہ صلاحیت Itaipu Dam کی ہے، جو 14 ہزار میگاواٹ ہے۔Itaipu Dam برازیل اور پیراگوئے کے بارڈر پر تعمیر کیا گیا ہے۔تھری گارجز کا موازنہ اگر پاکستان کے سب سے بڑے تربیلا ڈیم کے ساتھ کیا جائے تو یہ تربیلا کے 4888 میگا واٹ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ ڈیم اوسط سالانہ 95 ٹیرا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، جبکہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی کو 5 سو کلو وولٹ کی ٹرانسمیشن لائینز کے ذریعے ٹرانسمٹ کیا جاتا ہے۔اس کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ وسطی چین اور مشرقی چین کے شہروں کو ملتا ہے، جن میں شنگھائی بھی شامل ہے۔
تھری گارجز ڈیم کی تعمیر سے بننے والے واٹر ریزروائر کی پانی سٹور کرنے کی صلاحیت 39 بلین کیوبک میٹرز ہے، اور اس کا کل رقبہ 11 سو مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہے،اس کی Storage Capacity تربیلا کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہے۔پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے تھری گارجز ڈیم دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
جہاز رانی کیسے ہوتی ہے؟
دوستو دریائے ینگزی بحری تجارت کے لئے ہمیشہ ہی اہم رہا ہے۔Navigation کے لئے پانچ سیٹس(Steps) پر مشتمل دو طرفہ لاک سسٹم کی کنسٹرکشن بھی کی گئی ہے۔لاکس کی ورکنگ کچھ اس طرح ہے کہ مشرق میں شنگھائی کی طرف سے آنے والا بحری جہاز ڈیم کے قریب آ کر لاک کے پہلے سٹیپ میں داخل ہوتا ہے، پانامہ کینال لاکس کی طرح یہاں بھی لاک میں پانی کی سطح کو بلند کیا جاتا ہے، اور اس طرح جہاز اگلے سٹیپ پر پہنچ جاتا ہے۔ایسے ہی کرتے کرتے پانچویں اور آخری سٹیپ کو عبور کرنے کے بعد جہاز ڈیم میں داخل ہو جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔بالکل اسی طرح اگر کوئی بھری جہاز شنگھائی کی طرف جا رہا ہو تو وہ ڈیم کے آخری حصے میں آ کر لاک میں داخل ہوتا ہے، اب کی بار پانی کے لیول کو کم کرتے ہوئے جہاز کو نیچے دریا میں داخل کیا جاتا ہے۔لاکس سے 10 ہزار ٹن تک کا بحری جہاز آسانی سے گزر سکتا ہے۔دوستو ان لاکس سے گرزنے کے لئے ایک بحری جہاز کو 4 گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔لیکن دوستو چائینیز انجنئیرز نے اس کا متبادل بھی یہیں پر بنا رکھا ہے، اور وہ ہے ہائیڈرالک شپ لفٹ۔اسے 2015 میں تعمیر کیا گیا۔لفٹ کسی بحری جہاز کو 40 منٹ میں نیچے دریا سے اور ڈیم یا ڈیم سے دریا تک پہنچا دیتی ہے۔
کل لاگت اور فنانسنگ
اس عظیم الشان ڈیم کی تعمیر پر آنے والی کل لاگت کا ابتدائی تخمینہ 22 بلین امریکی ڈالرز لگایا گیا تھا، لیکن جب اس کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس پر تقریبا” 37 بلین امریکی ڈالرز خرچ کئے جا چکے تھے۔کل لاگت میں سے ڈیم کی کنسٹرکشن پر 19 بلین، پاور ٹرانسمیشن پر 5 بلین، جبکہ نقل مکانی کرنے والوں کی Resettlement پر آنے والے اخراجات تقریبا 13 بلین ڈالرز بنتے ہیں۔دوستو چین کا یہ منصوبہ سٹیٹ سپانسرڈ تھا، اس کے لئے رقم مختلف سورسز سے حاصل کی گئی،جن میں تھری گارجز ڈویلپمنٹ فنڈ، China Development Bank سے لیا گیا قرضہ شامل ہیں۔
ڈیم 2012 کے بعد سالانہ تقریبا 8 بلین ڈالرز کی بجلی پیدا کرتا ہے۔اس لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو ڈیم کی تعمیر پر آنے والی لاگت recover تقریبا” ہو چکی ہے۔
یہا
اعتراضات
ہائیڈرو الیکٹرک ڈیمز دنیا میں جہاں کہیں بھی تعمیر کئے جائیں ان پر اعتراضات کا اٹھایا جانا کوئی نئی بات نہیں۔لیکن دوستو یہ ڈیم اس لحاظ سے بھی انتہائی متنازعہ ہے کہ اس کے Water Reservoir میں 1500 کے لگ بھگ گاوں،شہر اور قصبے ڈوب گئے، اور تقریبا” تیرہ لاکھ لوگوں کو نکل مکانی کرنا پڑی۔صرف یہی نہیں بلکہ آثارِقدیمہ کی کچھ سائیٹس بھی زیرِ آب آگئیں۔یہی وجہ ہے کہ کئی قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ڈیم کی تعمیر پر شدید تحفظات کا اظہار پہلے بھی کیا اور آج بھی کر رہی ہیں۔
اس کے بعد ایک دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ چین نے اتنا بڑا ڈیم فالٹ لائن ریجن میں تعمیر کیا ہے اگر کبھی زلزلہ وغیرہ آ گیا تو ڈیم کے ٹوٹنے سے ہونے والی تباہی مون سون کی سیلابی صورتحال سے بھی شدید ہو گی، اور زیریں دریائے ینگزی کا ریجن شدید متاثر ہو گا۔
ایک تیسرا اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ڈیم کی وجہ یہاں کی وائلڈ لائف شدید متاثر ہوئی ہے، اور آس پاس کے علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ بھی بڑھ گئی ہے۔
ان تمام اعتراضات میں سب زیادہ جس بات پر فوکس کیا گیا وہ تھی لوگوں کی نکل مکانی، لیکن چین کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ اس ڈیم کے لانگ ٹرم(Longterm) فوائد ان شارٹ ٹرم(Shorterm) اثرات کو وقت کے ساتھ ساتھ کم کر دیں گے۔گرین اور ری نیو ایبل (Renewable) انرجی کے اس پراجیکٹ کی تکمیل سے چین میں کوئلے کی سالانہ کھپت میں تقریبا” پچاس ملین ٹن کمی ہو گئی ہے ، جو کہ ظاہر ہے ماحولیات کے لیے بہت مفید ہے۔
دلچسپ معلومات
جیسا کہ ہم جان چکے ہیں ڈیم اس ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کرنے کی صلاحیت 22 ہزار 500 میگا واٹ ہے۔لیکن 2020 میں ہونے والی شدید مون سون بارشوں کے بعد ڈیم نے سالانہ الیکٹریسٹی پروڈکشن کا ایک نیا ریکارڈ بنایا، اور 112 ٹیرا واٹ آور بجلی پیدا کی۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ دنیا کے دوسرے بڑے Itaipu Dam کے پاس تھا۔ Itaipu Dam نے 2016 میں 103 ٹیرا واٹ آور بجلی پیدا کی تھی۔اس سال ڈیم مکمل طور پر پانی سے بھر گیا تھا، کئی ماہرین کو اس بات کا خدشہ بھی تھا کہ سیلابی صورتحال کے باعث ڈیم کی مین وال ٹوٹ جائے گی۔
ڈیم کے بارے میں آخری دلچسپ بات جو ناسا کے سائینسدانوں نے بتائی ہے وہ یہ کہ اس عظیم الشان ڈیم کی وجہ سے ہماری زمین کی اپنی محور کے گرد رفتار تک کم ہوگئی ہے، لیکن ایک سیکنڈ کے ملین حصے سے بھی کم وقت کی یہ تبدیلیی اس قدر معمولی ہے کہ اسکو محسوس تک نہیں کیا جا سکتا اور نا ہی اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔