Home Uncategorized ملک دیوالیہ کیسے ہوتے ہیں؟

ملک دیوالیہ کیسے ہوتے ہیں؟

by Adnan Shafiq
0 comment

فرض کریں کہ آپ ایک گھر خریدنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے بینک سے قرض لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بینک  آپ کو 20 سال کی آسان ماھانہ اقساط پر قرض جاری کر دیتا ہے جس سے آپ گھر خرید لیتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد آپ اپنی خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے ادائیگیاں نہیں کر پاتے، تو ایسی صورتحال میں آپ دیوالیا قرار دیے جائیں گے یا معاشی اصطلاح میں آپ ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ نتیجتاً قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئیں گے اور بالآخر قرض سے خریدا گیا آپ کا وہ گھر نیلام کر دیا جائے گا اور ان پیسوں سے بینک اپنا دیا ہوا قرض واپس لے لے گا۔

اس کے بعد، اگلی بار جب بھی آپ قرض لینے کی کوشش کریں گے، تو بینک آپ کی ہسٹری اور کریڈٹ کے خراب معیار کی وجہ سے یا تو  قرض ہی نہیں دے گا یا پھر یہ قرض بہت زیادہ انٹرسٹ ریٹ پر دیے گا۔ 

بالکل اسی طرح، اگر کوئی کمپنی اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کرتی ہے تو اس کی ریٹنگ کے ساتھ ساتھ اس کی اسٹاک ویلیو یعنی شئیر کی قیمت بھی گر جاتی ہے۔ اس صورتحال میں کمپنی کے لیے مستقبل میں قرض لے کر نیا کاروبار کرنا  بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح ملکوں یا حکومتوں کو بھی اپنا معاشی نظام چلانے کے لیے قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے اکثر بیرونی قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

 ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کسی ملک کو قرضہ لینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ڈیفالٹ کیا ہے؟ اور کن حالات میں ممالک ڈیفالٹ کر جاتے ہیں؟ڈیفالٹ کرنے کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟ اور ڈیفالٹ کے حوالے سے پاکستان کی اس وقت کیا پوزیشن ہے؟

ملکی قرضوں کی اقسام 

دوستو انفرادی اور بزنس لونز یعنی قرضوں کی طرح، بعض ممالک بھی مالی نظام چلانے یا بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اندرونی یا بیرونی ذرائع سے قرضے حاصل کرتے ہیں۔ اندرونِ ملک قرض حاصل کرنے کا ایک ذریعہ مقامی بینک بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت مقامی کرنسی میں بانڈذ یا سیونگ سرٹیفیکیٹ جاری کر کے بھی سرمایہ اکٹھا کر سکتی ہے۔ بانڈز یا سیونگ سرٹیفیکیٹ، حکومت ایک مخصوص مدت کے لیے جاری کرتی ہے اور سرٹیفیکیٹ خریدنے والے کو حکومت باقائدگی سے منافع بھی دیتی ہے جبکہ سرٹیفیکیٹ کی مدت پوری ہونے پر سرمایہ کار کو اس کی اصل قیمت بھی واپس مل جاتی ہے۔   

مقامی کرنسی میں حاصل ہونے والے اس قرض کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی حکومت کو ان بانڈذ کی میچورٹی یعنی انویسٹمنٹ کا دورانیہ پورا ہونے پر پیسوں کی ادائیگی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ آسانی سے مزید رقم چھاپ سکتی ہے۔ تاہم ایسا کرنے سے، مقامی کرنسی کی قدر میں شدید کمی واقع ہو جاتی ہے، جس سے سرمایہ کاروں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یعنی، مثال کے طور پر اگر کوئی سرمایہ کار کسی حکومتی سرٹیفیکیٹ پر سالانہ 5 فیصد منافع کما رہا ہو، لیکن افراطِ زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں ایک سال میں 10 فیصد کمی واقع ہو جائے، تو وہ سرمایہ کار حقیقی معنوں میں 5 فیصد پیسے کھو دیتا ہے۔

لیکن دو ستوں ملکوں کا معاشی نظام چلانے کے لیے صرف مقامی کرنسی کافی نہیں ہوتی۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریباً ہر ملک دوسرے ممالک سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے جس کے لیے غیر ملکی کرنسی خصوصاً ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ ڈالر کی کمی پوری کرنے کے لیے معاشی طور پر کمزور ممالک کو بیرونی قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میگا پراجیکٹس جن کے لیے سامان کی درآمدات یا بیرونی سروسز درکار ہوں، ان کہ تکمیل میں مدد کے لیے بڑے بڑے بین الاقوامی ترقیاتی بینک جیسا کہ ورلڈ بینک یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک چھوٹے ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ فارن کرنسی میں قرض حاصل کرنے کی ایک قسم فارن ایکسچینج بانڈز بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالر یا دیگر کرنسیوں میں بانڈز جاری کرتی ہے جنہیں فارن ایکسچینج بانڈز کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ حکومت کے لیے غیر ملکی کرنسی میں سرمائے کا حصول ہے اور دوسری طرف بیرونی سرمایہ کار جو مقامی کرنسی میں سرمایہ کاری کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ متبادل انتظام بھی ہے۔

مزید یہ کہ آئی ایم ایف یعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، مالی بحران کے شکار ممالک کو قرض کی صورت میں مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ مالی بحران کی وجہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنا یا  دیگر بین الاقوامی ادائیگیوں میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔

ساورن ڈیفالٹ (Sovereign Default)

 قرض جو بھی ہو اس کی ادائیگی ایک معاہدے کے تحت مخصوص شرائط پر ہوتی ہے، جس کی پاسداری کرنا قرض لینے والے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔

اگر قرض لینے والے ملک کی جانب سے، قرض کے معاہدے میں ایک یا زیادہ شرائط کی خلاف ورزی کی جائے تو اسے (sovereign) ساورن ڈیفالٹ یا عام زبان میں دیوالیا کہا جاتا ہے۔

ڈیفالٹ کی وجوہات (Main Heading)

عام طور پر ساورن ڈیفالٹ کی سب سے بڑی وجہ قرض کی قسط کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی ہے، اس کے علاوہ فارن ایکسچینج بانڈذ کے منافعے یا اصل رقم کی عدم ادائیگی بھی ڈیفالٹ ہی کہلاتی ہے۔ 

زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی اور قرضوں کا بھاری بوجھ، بھاری کرنٹ اکائونٹ خسارہ، معاشی جمود اور سیاسی عدم استحکام کسی ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ آئیے ان وجوہات پر مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ 

1۔ زرمبادلہ کے کم زخائر اور بھاری قرضے (Heading on screen)

سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم کیا ہے اور ان کے مقابلے میں قریب ترین مدت میں واجب الادا بین الاقوامی ادائیگیوں اور قرضوں اور سود کی مالیت کتنی ہے۔ اس لیے زرمبادلہ کے زخائر ملکی ضروریات کے مطابق درآمدات کرنے، قرض کی قسط ادا کرنے اور فارن ایکسچینج بانڈز کا منافع ادا کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے، بصورت دیگر، اس ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے واضح امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

2۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ (Heading on screen)

کسی ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ بیرونِ ملک ذرائع سے ملنے والی رقم سے زیادہ بیرون ملک رقم بھیجتا ہے۔ تجارتی خسارہ عام طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سب سے بڑا جزو ہوتا ہے۔ تجارتی خسارے سے مراد کسی ملک کی برآمدات سے ہونے والی کمائی اور درآمدات پر ہونے والے اخراجات کا فرق ہوتا ہے۔ تجارتی خسارہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ملک برآمدات پر کمانے سے زیادہ درآمدات پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ خسارہ، یعنی آمدن سے زائد اخراجات بھی قرضوں کے حصول کی ایک بڑی وجہ ہے۔ طویل عرصے تک چلنے والا بھاری کرنٹ اکاونٹ اور بجٹ خسارہ بھی کسی ملک کے دیوالیا یا ڈیفالٹ ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔

3۔ معاشی جمود یا مالی بد انتظامی (Heading on screen)

معاشی جمود یعنی economic stagnation بھی ڈیفالٹ کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ مسلسل معاشی جمود کسی ملک کی معیشت کو کمزور کر دیتا ہے جس سے ملکی آمدنی کو بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً اس ملک کی قرض ادا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس سے ملکی اور غیر ملکی قرض دہندگان کے اعتماد میں کمی آتی ہے، جس سے مزید قرضےحاصل کرنا زیادہ مشکل اور مہنگا ہو جاتا ہے۔ 

4۔ سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بد انتظامی (Heading on screen)

سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک میں معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار نہیں رہتا جس کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مالیاتی بد انتظامی بھی سرمایہ کار کے عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہے جو ملک کی معیشت کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔ لہذا سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بدانتظامی بھی ساورن ڈیفالٹ کی ایک اہم وجہ ہے۔

ڈیفالٹ کرنے والے ممالک کی تاریخ (Main Heading)

 حالیہ تاریخ میں بہت سے ایسے ممالک ملتے ہیں جو غیر ملکی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ ان میں بعض ممالک بشمول وینزویلا، ایکواڈار اور ارجنٹینا ایسے ہیں جو ایک سے زائد بار ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کی ڈیفالٹ ہونے والے تمام ممالک ترقی پزیر یا معاشی اعتبار سے کمزور ملک نہیں تھے، بلکہ بعض بڑے ممالک بھی ماضی میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ 

امریکہ (Heading on screen)

آج امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت سمجھا جاتا ہے مگر 1840 کی دہائی میں امریکی معیشت بھی دیوالیہ ہوچکی ہے۔ اس وقت امریکا کی 26 میں سے 19 ریاستوں نے اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس ڈیفالٹ کی وجہ یہ تھی کہ امریکا میں تیزی سے نہری نظام کو قائم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جس کے لیے 8 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ اس رقم کی ادائیگی وعدے کے مطابق اور بروقت نہ ہوسکی۔

اس کے علاوہ 1933، 1979 اور 2013 میں مختلف وجوہات کی بنا پر امریکی حکومت قرض یا بیرونی ادائیگیاں وقت پر نہ کر سکی تھی۔ مگر چونکہ امریکی حکومت کی کرنسی ڈالر ہے جو دنیا کی ریزرو کرنسی بھی ہے، اس لیے امریکا کو دیگر ملکوں کی طرح ڈیفالٹ کا سامنا نہیں ہوا۔

سری لنکا (Heading on screen)

حال ہی میں سری لنکا کی حکومت نے اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ کیا ہے۔ سری لنکا کی کمزور معیشت کئی دہائیوں سے متعدد بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ ماضی میں سری لنکن حکومت ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے 16 بار آئی ایم ایف سے مدد طلب کر چکی ہے۔ تاہم، اس بار صورتحال بہت مختلف اور کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی مالی بد انتظامی کو سمجھا جاتا ہے، تاہم  COVID-19 نے 2020 کے اوائل میں صورتحال کو مزید خراب کر دیا تھا۔ سری لنکا کی غیر ملکی آمدن کا 25 فیصد حصہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہے اور اس عالمی وبائی مرض نے سری لنکا کی سیاحت کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ بالآخر 2022 میں، سری لنکا اپنی تاریخ میں پہلی بار غیر ملکی قرض دہندگان کو قرض کی ادائیگی معطل کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔

ایران (Heading on screen)

1979 کے ایرانی انقلاب کے فوراً بعد قائم ہونے والے نئی حکومت نے پچھلی حکومت کی جانب سے لیے گئے اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے واپس ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔  

آئس لینڈ (Heading on screen)

آئس لینڈ کی آبادی محض 4 لاکھ سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران آئس لینڈ نے 85 بلین ڈالر سے زیادہ کے  بیرونی قرضے میں ڈیفالٹ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آئس لینڈ کی سٹاک مارکیٹ تقریبا 90 فیصد تک گر گئی تھی اور ملک کی تقریباً 15 فیصد آبادی یعنی پچاس ہزار سے زائد شہریوں کی جمع پونجی ضائع ہو گئی تھی۔

لبنان اور یونان (Heading on screen)

2012 میں یونان اور 2020 میں لبنان کی حکومتوں نے ڈیفالٹ کیا تھا جس کی وجہ بھاری تجارتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور اس سے منسلک قرضوں کا شدید بوجھ تھا۔

روس، یوکرین اور وینزویلا (Heading on screen)

روس 1998 میں، یوکرین 1998 اور 2015 میں جبکہ وینزویلا 2017 میں شدید معاشی جمود کے باعث ڈیفالٹ کر چکا ہے۔

ارجنٹینا اور ایکواڈور (Heading on screen)

2001، 2014 اور 2019 میں ارجنٹینا جبکہ 2008 اور 2020 میں ایکواڈور نے سیاسی عدم استحکام اور غلط معاشی پالیسیوں کے باعث ڈیفالٹ کیا تھا۔

ڈیفالٹ ہونے کے نتائج (Main Heading)

 کسی ملک پر ڈیفالٹ ہونے کے اثرات اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ ڈیفالٹ کس وجہ سے ہوا ہے اور ڈیفالٹ ہونے والے ملک کے اپنے حالات اور وسائل کیسے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کی ڈیفالٹ ہونے کے ممکنہ طور پر کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

1۔ کریڈٹ ریٹنگ میں کمی اور شرح سود میں اضافہ (Heading on screen)

ڈیفالٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں جیسا کہ موڈیز (Moody’s) اور فِچ (Fitch)  ڈیفالٹ کرنے والے ملکوں کی کریڈٹ ریٹنگ کم کر دیتی ہیں۔ نتیجتاً ایسے ملک کے لیے عالمی اداروں کے عدم اعتماد کے باعث مستقبل میں مالی لین دین اور قرض کے حصول میں مشکلات ہو سکتی ہیں جس سے ملک کی تجارت اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔  مزید یہ کی ایسی صورتحال میں مقامی بینکوں کے شرح سود میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پیسے کی گردش میں واضح کمی واقع ہوسکتی ہے اور لوگوں کو نئے کاروبار کے آغاز میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

2۔ کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ (Heading on screen)

 جب کوئی ملک ڈیفالٹ کر جائے تو غیر ملکی سرمایہ کار اپنے مقامی اثاثوں کو فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دیوالیا یا ڈیفالٹ ہوئے ملک سے باہر نکلیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح مبادلہ میں کمی واقع ہوتی ہے اور مقامی کرنسی کی قدر میں شدید کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے مصنوعات کی درآمد مہنگی یا بالکل ختم ہو جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کرکے مقامی ادائیگیاں کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس سے ملکی پیداوار کے مقابلے میں دستیاب رقم بہت زیادہ ہوجاتی ہے جس سے اس ملک میں ہائپر انفلیشن کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہائپر انفلیشن معاشی اصطلاح میں تیز رفتار، ضرورت سے زیادہ، اور کنٹرول سے باہر عمومی قیمتوں میں اضافے کو کہتے ہیں۔ 

3۔ بینکنگ بحران (Heading on screen)

ڈیفالٹ ہونے کے بعد کسی بھی ملک میں غیر یقینی کی صورتحال بڑھ جاتی ہے۔ نتیجتاً لوگ افرا تفری کا شکار ہو کر اپنا سارا پیسہ بینکوں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک سنگین بینکنگ بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت رقم نکالنے سے بچنے کے لیے اپنے بینک بند بھی کر سکتی ہے یا محدود تعداد میں سرمایہ نکالنے کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔ اس کی عملی مثال 1929 سے 1939 کے درمیان دنیا کے بیشتر ممالک میں آنے والے گریٹ ڈپریشن کی ہے جب لوگوں نے بڑی تعداد میں امریکی بینکوں کا رخ کیا اور کرنسی کے بدلے رکھے ہوئے اپنے سونے کا مطالبہ کیا، جس سے ایک شدید بحران پیدا ہو گیا تھا۔

4۔ اندرونی ڈیفالٹ، غربت اور بےروزگاری (Heading on screen)

اس کے علاوہ غیر ملکی کرنسی کے قرض پر ڈیفالٹ ہونے والے ممالک مقامی کرنسی کے قرض پر بھی ڈیفالٹ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے ممالک میں غربت، بے روزگاری اور جرائم میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

پاکستان کی معاشی صورتحال (Main Heading)

 یہ حقیقت ہے کہ کسی ملک کا دیوالیہ یا ڈیفالٹ ہونا اس ملک کے لیے اچھا تو نہیں ہوسکتا لیکن آجکل کے دور میں ڈیفالٹ ہونا کوئی بہت زیادہ غیر معمولی بات بھی نہیں ہے۔ دور حاضر کی سپرپاورز مثلاً امریکا، روس، جاپان اور جرمنی وغیرہ بھی کسی نہ کسی وجہ سے ماضی میں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔

 کوئی بھی ملک صرف اسی صورت میں ساورن ڈیفالٹ ہوتا ہے جب وہ غیر ملکی اداروں یا ملکوں کو ڈالر میں ادائیگیاں نہ کر سکے۔ اس حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے کل قرضوں کا صرف 38 فیصد حصہ ہی بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ پاکستان کے پاس اس وقت صرف 6.7 ارب ڈالر کے فارن ریزروز موجود ہیں جو قرض کی ادائیگی اور درآمدات کے لیے بظاہر کم تو لگتے ہیں، لیکن چونکہ پاکستانی ریاست عالمی مالیاتی اداروں سے  پہلے بھی قرض لیتی رہی ہے اور یہ ادارے بار بار پاکستان کو قرض دے بھی دیتے ہیں، اس لیے پاکستان آج تک دیوالیہ نہیں ہوا اور امید ہے کہ آگے بھی نہیں ہو گا۔ 

 جہاں ساورن ڈیفالٹ کے اتنے نقصانات ہیں اور یہ کسی ملک کو مختصر مدت کے لیے مشکل صورتحال میں ڈال سکتا ہے، اس کی ساکھ اور اس کے لوگوں کے معیار زندگی کو متاثر کر سکتا ہے، وہاں اس صورتحال سے نکلنے کے راستے بھی موجود ہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی، سیاسی استحکام اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے کوئی بھی ملک دوبارہ ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu