یہ بات ہے دوسری جنگ عظیم کی، جب ستمبر 1944 میں، ڈچ ریلوے ورکرز نے جرمن نازی فوجیوں کی آمدورفت روکنے کے لیے ریلوے کا پہیا جام کر دیا تھا۔
بد قسمتی سے ان کی یہ مہم نا صرف ناکام ہو گئی، بلکہ بدلے میں، سزا کے طور پر جرمن فوج نے نیدرلینڈز کی خوراک کی سپلائی بھی روک دی۔ نتیجتاً، ملک کا بیشتر حصہ خوراک کی قلت اور شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا۔ اس دوران حاملہ خواتین خاص طور پر شدید متاثر ہوئیں، اور جن بچوں کو انہوں نے جنم دیا وہ زندگی بھر اس قحط سے متاثر رہے۔ ان میں موٹاپا، ذیابیطس اور شیزوفرینیا (Schizophrenia) جیسی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ دیکھی گئی۔ مئی 1945 میں جب نیدرلینڈز جرمن تسلط سے آزاد ہوا، تب تک 20,000 سے زائد لوگ بھوک سے مر چکے تھے۔
خوراک کی شدید قلت اور اس مشکل ترین دور نے نیدرلینڈز کی مستقبل کی ترجیحات کا تعین کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد نیدرلینڈز حکومت نے زراعت اور خوراک کی پیداوار کو خصوصی اہمیت دی، اور آج نیدرلینڈز اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو خوراک اور زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے خیبر پختونخواں سے بھی آدھے رقبے پر محیط یہ گنجان آباد ملک اس وقت 100 ارب ڈالر سے زائد کی زرعی برآمدات کے ساتھ دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے، جبکہ پہلے نمبر پر موجود امریکہ رقبے کے اعتبار سے نیدرلینڈز سے تقریباً 240 گنا بڑا ہے۔ پھلوں، سبزیوں اور پھولوں کے بیجوں کی عالمی تجارت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ اس وقت نیدرلینڈز کے پاس ہے۔ ڈیری مصنوعات بشمول چیز اور پاؤڈر ملک کا بھی نیدرلینڈز ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ مزید یہ کہ نیدرلینڈز یورپ کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی بن چکا ہے۔
دوستو، جب خوراک اور غذائیت کی بات آتی ہے تو ڈچ دنیا کے صحت مند ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ آکسفیم (Oxfam) فوڈ انڈیکس کے مطابق، 125 ممالک کی فہرست میں سے نیدرلینڈز، غذائیت سے بھرپور، صحت مند، سستی اور وافر مقدار میں خوراک کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔
ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کی مستقبل میں اچھی زرعی پیداوار کتنی اہمیت کی حامل ہو گی، اور نیدرلینڈز کیسے اپنے کم رقبے کے باوجود وسیع زرعی پیداوار کے زریعے اس وقت پوری دنیا کو خوراک فراہم کر رہا ہے۔
زراعت کی اہمیت۔
ایک اندازے کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی تقریباً 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔ اتنی تعداد میں انسانوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے یقیناً ایک بڑے پیمانے پر کاشت کاری کی ضرورت بھی پڑے گی۔ دنیا کے موجودہ زرعی نظام میں اس قدر پیداوار کے لیے ممکنہ طور پر کرہ عرض پر موجود جنگلات کو زرعی زمین میں تبدیل کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اتنے بڑے رقبے کو کاشت کے قابل بنانے کے لیے بڑی مقدار میں پانی کی فراہمی بھی ایک بہت بڑا چیلینج ہو گی۔
لہذا اس تمام تر صورتحال میں مستقبل میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسے طریقوں کی ضرورت ہے جو تھوڑی زمین اور مختصر وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار دے سکیں۔ اس حوالے سے نیدرلینڈز ایک ایسا ملک بن کر ابھر رہا ہے جو زراعت کے شعبے میں تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے، کم رقبے پر بھی زیادہ زرعی پیداوار کر رہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں نیدرلینڈز کی پائدار زرعی کامیابی کی کیا وجوہات ہیں۔
زرخیز زمین۔
اچھی زرعی پیداوار کے لیے زرخیز زمین ایک بنیادی ضرورت ہے۔ نیدرلینڈز کی زمین زرخیز ہے اور وہاں کا درجہ حرارت اور موسمی حالات کاشتکاری کے لیے معتدل ہیں، اس لیے فصلوں کی نشوونما، پودوں کی افزائش اور مویشیوں اور مرغیوں کی پرورش، انتہائی آسانی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ نیدرلینڈز اس وقت اپنے آدھے سے زائد رقبے پر زراعت کر رہا ہے۔
امریکہ کے علاوہ، بھارت، چین، روس اور برازیل جیسے ممالک بھی اپنی زرخیز زمین اور وسیع رقبے کے باعث بڑی مقدار میں زرعی پیداوار تو کر رہے ہیں لیکن زیادہ آبادی کی وجہ سے ان ممالک کو خوراک کی ضرورت بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف سخت موسم اور بنجر زمین والے ممالک خوراک کے حصول کے لیے درآمد پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے نیدرلینڈز ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ گنجان آباد ہونے کے باوجود نیدرلینڈز اپنی ضروریات کے علاوہ کثیر پیمانے پر زرعی مصنوعات برآمد بھی کرتا ہے۔
رقبے کے اعتبار سے بھارت نیدرلینڈز سے 80 گنا بڑا ہے اور نیدرلینڈز بھارت کے مقابلے میں زیادہ گنجان آباد بھی ہے، اس کے باوجود نیدرلینڈز کی زرعی برآبدات بھارت سے تقریبا تین گنا زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ نیدرلینڈز وسطی یورپ میں ہونے کے باعث، جغرافیائی اعتبار سے پورے یورپ کو بالخصوص اور دنیا کے دیگر ممالک کو بالعموم، اشیا برآمد کرنے کے لیے ایک بہترین مقام بھی بن جاتا ہے۔
زرعی ٹیکنالوجی۔
نیدرلینڈز کے لوگ جدید ترین زرعی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت، کھاد اور سپرے کے استعمال، فصلوں کی کٹائی اور درختوں سے پھل اتارنے کے لیے وہ جدید ترین مشینری کا استعمال کرتے ہیں۔ فصلوں کی نگرانی کے لیے جدید مانیٹرنگ سسٹم سے منسلک ڈرونز کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
نیدرلینڈز میں ورٹیکل (vertical) فارمنگ اور گرین ہاؤس کے استعمال سے زرعی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ورٹیکل فارمنگ میں، کنٹرول شدہ ماحول میں، بلاکس کی شکل میں ایک دوسرے کے اوپر تہوں یا لیولز میں فصلیں اگائی جاتی ہیں، تاکہ موسم اور آب و ہوا سےقطع نظر سال کے کسی بھی حصے میں بڑے پیمانے پر تازہ سبزیوں کی کاشت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کنٹرول شدہ ماحول میں قدرتی موسم کی سختیوں، جیسا کہ بارش، تیز دھوپ، ہواؤں یا برف باری کے اثرات سے فصلوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ورٹیکل فارمنگ کے زریعے 10 سے 20 گنا کم زمین پر مطلوبہ مقدار میں زرعی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔
البتہ اس ٹیکنالوجی کے لئے توانائی کی کھپت یعنی اینرجی ریکوائرمنٹ (energy requirement) نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، جس کے لیے گرین ہاؤس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ گرین ہاؤس کا مقصد، سورج کی روشنی اور حرارت کی مدد سے درجہ حرارت کو احتیاط سے کنٹرول کرنا ہے۔ لہٰذا قدرتی زرائع سے حاصل کی گئی توانائی کو ایک خاص ماحول کی موجودگی میں زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اضافی طور پر مصنوعی روشنی کے استعمال سے پودے کی 24 گھنٹے نشونما کے زریعے مختصر وقت میں زیادہ پیداور کو ممکن بنایا جاتا ہے۔
کھاد اور کیڑے مار ادویات کی فیکٹریوں میں تیاری، فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک اہم سبب ہے۔ مزید یہ کہ ان ادویات کا زمین پر مستقل استعمال طویل مدت میں زمین کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ ورٹیکل فارمنگ اور گرین ہاؤس ٹیکنالوجی کی بدولت کھاد اور کیڑے مار ادویات کے کم استعمال اور غذائی اجزاء کے کم ترین اخراج کے ساتھ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت تقریباً 90 فیصد تک پانی کے استعمال کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
نیدرلینڈز میں موجود پلانٹ لیب (Plant Lab) نامی تحقیقی مرکز دنیا میں ورٹیکل فارمنگ کا سب سے بڑا سینٹر ہے۔ اس میں روشنی کے لیے مخصوص ایل ای ڈی لائٹس اور پودوں کی کاشت کے لیے پلاسٹک کی ٹرے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس فارم میں سب کچھ خودکار طریقے سے ہوتا ہے، انسانی ہاتھوں سے کسی چیز کو چھوا نہیں جاتا اور پانی بھی ضائع نہی کیا جاتا یعنی پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ فی الحال یہ فارم پتوں والی سبزیاں، جڑی بوٹیاں اور ٹماٹر اگانے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی بدولت نیدرلینڈز، ٹماٹر اور کھیروں سمیت مختلف سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار میں دنیا میں سرفہرست ہے، جبکہ پیاز کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بھی نیدرلینڈز ہی ہے۔
اس کے علاوہ گوشت اور ڈیری مصنوعات کی زیادہ پیداوار کے لیے نیدرلینڈز میں جدید طرز پر فارمز بنائے گئے ہیں۔ مرغیوں کی افزائش اور نشونما کے لیے بنائے گئے پولٹری فارمز میں آب و ہوا اور درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے اور ان کو بہترین خوراک کھلائی جاتی ہے۔ نیدرلینڈز اس وقت سالانہ تقریباً 4 ملین گائے، 104 ملین مرغیاں اور بڑی تعداد میں دیگر جانور پیدا کرتا ہے اور یوں نیدرلینڈز یورپ کا سب سے بڑا گوشت برآمد کرنے والا ملک ہے۔
تعلیم و تحقیق۔
نیدرلینڈ زراعت سے وابستہ افراد کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور تحقیق کے ساتھ تعلیم دینے پر گہری توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
نیدرلینڈز کی ویگننگن (Wageningen) یونیورسٹی زرعی علوم اور تعلیم و تحقیق کے لیے دنیا کی نمبر ایک یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔ نیدرلینڈز کی زراعت کے شعبے میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ اس یونیورسٹی کی لیبارٹیوں میں ہونے والی تحقیق بھی ہے۔ مثال کے طور پر، یونیورسٹی نے ڈچ گرین ہاؤسز میں کیلے اگانے کے لیے نئی تحقیق کی جس کی بدولت فنگس، فصلوں کو نقصان نہیں پہنچاتی اور یوں فصل کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔
فوڈ بزنس سے منسلک کم وبیش دنیا کی 15 بڑی کمپنیوں بشمول نیسلے، کوکا کولا، یونیلیور اور کرافٹ ہینز کے ہالینڈ میں ریسرچ سنٹرز موجود ہیں۔ یہاں پر ہونے والی تحقیق سے پوری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے۔
انڈے اور دودھ کی مصنوعات نیدرلینڈز کی برآمدات کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں، اس لیے بڑی تعداد میں موجود ان جانوروں کو کھانا کھلانا بھی ایک چیلینج ہے – لیکن اس کے حل کے لیے کچھ ڈچ کمپنیاں جانوروں کی خوراک مکمل طور پر انسانی خوراک کے فضلے بشمول بیکنگ انڈسٹری کی باقیات سے تیار کرتی ہیں، جس سے نا صرف جانوروں کی خوراک کی ضرورت پوری ہو رہی ہے بلکہ گوشت کی وسیع پیمانے پر پیداوار میں بھی مدد مل رہی ہے۔
ڈچ کمپنیاں اس وقت زراعت کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ بیج فراہم کرنے والی کمپنیاں ہیں۔ نیدرلینڈز کے شمال مغرب میں ایک علاقہ ہے جسے سیڈ ویلی (seed valley) کہتے ہیں، وہاں سبزیوں اور پھولوں کی نئی اقسام کے بیج مسلسل تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہاں پر موجود مختلف کمپنیاں مسلسل تحقیق کر رہی ہیں اور ایسے بیج پیدا کر رہی ہیں جن کے زریعے فصل کی زیادہ پیداوار ممکن ہو سکے۔ یہ کمپنیاں ہر قسم کی آب و ہوا، شدید موسم، کم پانی اور آوٹ ڈور اور انڈور کاشت کے لیے بیج تیار کرتی ہیں۔
اس تحقیق اور جدید طریقوں کی بدولت آج نیدرلینڈز کی گندم کی پیداوار تقریباً 85 من فی ایکڑ سے زیادہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان اوسطاً صرف 40 من فی ایکڑ گندم پیدا کرتا ہے۔
پلاننگ اور انفراسٹرکچر
اس بڑے پیمانے پر زرعی مصنوعات کی پیداوار اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے کسان کو حکومت اور تحقیقی اداروں کے تعاون اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے نیدرلینڈز میں خوراک کی صنعتوں، تعلیمی و تحقیقی اداروں اور حکومت کے درمیان مظبوط باہمی تعاون کی فضا موجود ہے۔
ملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر موجود ہے، اور انٹیرنیٹ آف تھنگز یعنی آئی او ٹی (IOT) کے زریعے تمام ڈیٹا کو ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے۔ موسم کی جانکاری کے لیے کسان موسمی اسٹیشنوں کے قومی نیٹورک سے ڈیٹا خرید سکتے ہیں۔ مختلف سنسرز اور آلات کے زریعے فصلوں کی مانیٹرنگ کا وسیع نظام موجود ہے۔ مزید یہ کہ غذائی مصنوعات کو اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں فروخت کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے آسان مواقع اور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیدرلینڈز اپنی تحقیق اور ترقی، جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کے استعمال، تیز رفتار اور بہتر انفراسٹرکچر، محنت اور لگن کی وجہ سے آج دنیا کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ روبوٹکس اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے نیدرلینڈز افرادی قوت پر کم اور سائنسی علم پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
چونکہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ہماری زمین بھی بہت زرخیز ہے، اس لیے پاکستان تحقیق اور ترقی پر توجہ دے کر زرعی پیداوار میں بے پناہ اضافہ کر سکتا ہے اور ایک بڑا برآمد کنندہ بن کر ابھر سکتا ہے۔