استنبول ناصرف ترکی بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے معاشی ، ثقافتی اور تاریخی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے درمیان آبنائے باسفورس کے دونوں جانب واقع ہے۔ یعنی اسکا ایک حصّہ ایشیا میں ہے اور دوسرا حصہ یورپ میں ہے۔ آبنائے باسفورس اکتیس کلومیٹر لمبی پانی کی قدرتی گزرگاہ ہے جو دونوں براعظموں کو جدا کرتی ہے اور استنبول کو دو براعظموں میں بٹا ہوا دنیا کا واحد شہر بناتی ہے۔ استنبول اس وقت تو دنیا کا پانچواں بڑا شہر اور یورپ کاسب سے بڑا شہر ہے، لیکن ایک دور تھا جب استنبول قسطنطنیہ ہوا کرتا ہے۔ مسلمان کئی صدیوں سے اسے فتح کرنے کا خواب سینے میں دبائے ہوئے تھے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ آخر کار سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو کیسے فتح کیا؟ رومی سلطنت کے دور میں قسطنطنیہ کا کیا مقام اور اہمیت تھی؟ اس شہر کو سب سے پہلے کس نے اور کب آباد کیا تھا؟ آج کی اس ویڈیو میں ہم اس شہر کی تاریخ کے بارے میں جانیں گے ۔
پہلی بار کس نے آباد کیا؟
مورخین کے مطابق چھ سو ستاون قبل مسیح 657 B.C میں میگارا کے یونانی باشندوں نے آبنائے باسفورس کے مغربی جانب ایک بستی آباد کی۔ انہوں نے golden horn کے قریب ایک قلعہ تعمیر کیا۔ گولڈن horn دراصل پانی کی ایک قدرتی گزرگاہ یعنی خلیج ہے جہاں آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کے پانی کا ملاپ ہوتا ہے اور یہ استنبول میں داخل ہوتا ہے۔ جب اس پر ابھرتے سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو یہ آبی گزرگاہ سنہرے رنگ میں چمک اٹھتی ہے۔ اسی مناسبت سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ دوستو یونانی باشندوں نے یہ بستی آباد تو کر لی تھی البتہ وہ اسکی حفاظت نہیں کر پائے اور کچھ عرصہ کے لیے یہ علاقہ فارس کے کنٹرول میں چلا گیا۔ لیکن جلد ہی یونانیوں نے دوبارہ اس پر اپنا قبضہ جما لیا۔ اپنے حکمران بیزاس byzasکے نام پر اس شہر کا نام بازنطیوم (Byzantium)رکھا۔ یونانی چونکہ رومیوں کے اتحادی تھے، انہوں نے تہتر عیسوی 73 AC میں بازنطیوم رومی سلطنت کے حوالے کر دیا۔ ایک سو چھیانوے عیسوی میں ایک رومی شہنشاہ Septimius Severus (سیپتیمئس سیوریس) نے ایک جنگ کے دوران دوسرے رومی حکمران کا ساتھ دینے پر بازنطیوم کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ البتہ بعد میں خود ہی اس شہر کی تعمیر نو کروائی اور شہر دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔
بازنطیوم کو رومی دور میں کیا مقام حاصل تھا؟
بازنطیوم یعنی موجودہ استنبول کے دن تب بدلے جب تین سو چوبیس عیسوی میں یہ شہر قسطنطینِ اعظم یعنی Constantine one کی نظروں میں آگیا۔ قسطنطین اس وقت رومن ایمپائر کا بادشاہ تھا اور بازنطیوم بھی رومی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ قسطنطین اول کو یہ شہر بہت ہی پسند آیا اور اس نے بازنطیوم کا نام Nova Roma یعنی نیا روم رکھ دیا گیا اور رومی سلطنت کا دارلحکومت بھی روم سے بازنطیوم منتقل کر دیا ۔ اسی بادشاہ نے بعد میں اس شہر کا نام اپنے نام کی مناسبت سے Constantinople بھی رکھا جو زیادہ مشہور ہوا یہی نام بعد ازاں عربی لہجے میں بگڑ کر قسطنطنیہ بن گیا اور زبان زدِ عام و خاص ہوگیا۔ قسطنطین نے قسطنطنیہ کی تعمیر نو کا کام شروع کروایا۔ پورے شہر کے گرد حفاظتی دیوار تعمیر کروائی گئی۔ روم سے قیمتی آرٹ کے شاہکار یہاں لائے گئے اور قسطنطنیہ کی تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔ شہر کی وسیع پیمانے پر آبادکاری کے لئے رہائشیوں کو مفت کھانا دیا جاتا۔ آبی نظام کو بہتر کیا گیا، جس کے لیے روم سے بہترین انجینئر بلائے گئے۔ نت نئی عمارات تعمیر کی گئیں۔ قسطنطین اعظم نے قسطنطنیہ کو Christianity کا مرکز بھی بنا دیا پورے شہر میں کئی ایک گرجا گھر تعمیر کئے گئے۔ اب اس شہر کو شہروں کی ملکہ کہا جانے لگا تھا۔ یہ شہر اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھی دفاعی طور پر مضبوط تھا۔ مختلف بازنطینی حکمران بدلتے رہے اور اسکی مضبوط حفاظتی دیواروں اور سمندری حدود کی وجہ سے یہ شہر بیرونی حملوں سے محفوظ رہا- جبکہ دوسری طرف مغرب میں رومن ایمپائر کئی دہائیوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ چار سو چھہتر عیسوی میں اس کا خاتمہ ہوگیا لیکن یہ بازنطیوم یعنی Constantinople میں بازنطینی سلطنت کی شکل میں طاقتور ہورہی تھی۔اسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا تھا۔ بازنطیوم ہی اب بازنطینی سلطنت یعنی مشرقی رومی سلطنت کا مرکز تھا۔ پانچ سو ستائیس عیسوی میں جسٹینین اول Justinian I بازنطینی سلطنت کا بادشاہ بنا اس نے بھی شہر کی ترقی پر خاص توجہ دی۔ آیا صوفیہ جو اس وقت گرجا گھر ہوا کرتا تھا، اسی حکمران نے تعمیر کروایا تھا۔ اسے دس ہزار افراد نے چھ سال کے عرصے میں مکمل کیا تھا۔ آیا صوفیہ کو آج چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی فن تعمیر کا ایک نایاب شاہکار مانا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی قسطنطنیہ فتح کرنے کی ناکام کوشش
قسطنطنیہ اس دور میں ایک شاندار شہر بن چکا تھا۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھی بہت سی طاقتوں کی نظریں اس شہر پر جمی ہوئی تھیں ۔ مسلمان بھی اسے فتح کرنے کے خواب دیکھتے آئے تھے۔لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ چھ سو چوہتر عیسوی میں پوری تیاری کے ساتھ ایک بحری بیڑہ قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان تھے۔ یہ بیڑہ چار سال تک شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن کامیابی انکے نصیب میں نہیں تھی۔ چھ سو اٹھہتر عیسوی میں بازنطینی ب حری جہازوں نے ان مسلمانوں پر دھاوا بول دیا۔ دوستو بازنطینی جنگجووں کے پاس ایک ایسا سیکرٹ ہتھیار تھا جس کا راز آج تک نہیں کھل پایا۔ یہ لوگ دشمن کی کشتیوں کو جلانے کے لئے ان پر آتش گیر مادہ پھینکتے، یہ کشتیوں سے چپک جاتا تھا اور ان میں آگ لگ جاتی تھی، جب آگ بجھانے کے لئے پانی ڈالا جاتا تو آگ بجائے بجھنے کے، مزید تیز ہو جایا کرتی تھی۔ یہ ہتھیار یونانیوں کی ہی کارستانی تھا اور اسے greek fire کہا جاتا تھا۔ تو دوستو مسلمان تو اس حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ وہ بوکھلا گئے اور پانی میں کود کر اپنی جانیں بچانے لگے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پورے سمندر میں آگ لگ گئی ہو۔ اس پر م زید تباہی سمندری طوفان نے مچائی اور بہت ہی کم مسلمان زندہ واپس لوٹ سکے۔ اس محاصرے میں مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے بھی اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا مقبرہ آج بھی استنبول میں موجود ہے اور اسے ایک مسجد کا درجہ دیا گیا ہے۔
اس ہار کے باوجود مسلمانوں نے ہار نہیں مانی اور سات سو گیارہ عیسوی میں ایک بار پھر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ البتہ فتح اس بار بھی انکی قسمت میں نہیں تھی۔ اسکے بعد چھ صدیوں تک مسلمانوں نے پلٹ کر قسطنطنیہ کی جانب نہیں دیکھا۔ جبکہ اس دوران قسطنطنیہ میں کئی بازنطینی حکمران آئے اور گئے ۔ لیکن پھر پندرہویں صدی کا آغاز ہوا اور پوری دنیا نے دیکھا کہ مسلم دنیا کے ایک عظیم اور بہادر حکمران نے کس طرح سے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا اور خلافت عثمانیہ نے پوری دنیا پر حکومت کی۔ ایسا کیسے ہوا۔
خلافت عثمانیہ اور فتح قسطنطنیہ
بارہ سو چار میں صلیبی جنگ کے دوران بازنطینی سلطنت میں اختلافات نے جنم لیا- صلیبی ان دنوں قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور انکو خطیر رقم درکار تھی۔ جس کے لئے صلیبیوں نے اپنے ہی شہر قسطنطنیہ میں خوب لوٹ کھسوٹ کی ۔ جس کا نقصان بھی انہی کو اٹھانا پڑا اور اس کی وجہ سے بازنطینی سلطنت کافی کمزور ہوگئی۔ چودہویں صدی کے وسط میں ترکوں نے چھوٹے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا۔ انکے حوصلے بلند تھے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ تو خلافت عثمانیہ کے بانی سلطان غازی کا خواب تھا۔ مورخین کے مطابق ایک رات عثمان ایک بزگ شیخ ادیبالی کے گھر میں سو رہے تھے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کے سینے سے درخت نکلا ہے اور اس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیل گئی ہیں۔ جب انہوں نے یہ خواب شیخ ادیبالی کو سنایا تو انہوں نے کہا “عثمان, مبارک ہو، خدا نے شاہی تخت تمہارے اور تمہاری اولاد کے حوالے کر دیا ہے” ۔ یہ خواب سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک مضبوط بنیاد بن گیا تھا۔ عثمان کے جانشین چودہویں صدی میں یونان کے کئی شہروں پر قبضہ کر چکے تھے اور اب انکی منزل قسطنطنیہ تھی۔ مسلمان سات صدیوں سے اسے فتح کرنے کا خواب دیکھتے آئے تھے۔ سال چودہ سو ترپن میں عثمانی سلطان محمد ثانی نے ایک کامیاب پلان ترتیب دیا۔ اسی ہزار سے دو لاکھ افراد پر مشتمل ایک فوج تیار کی گئی، شہر کا محاصرہ کیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ تک عثمانی فوج قسطنطنیہ پر گولے برساتی رہی۔ اس دوران آخری بازنطینی شہنشاہ بھی جان سے چلا گیا۔ یہ انتیس مئی چودہ سو ترپن کا دن تھا۔ عثمانی فوج سینتالیس دن سے قسطنطنیہ کو گھیرے ہوئے تھی۔ رات کا وقت تھا۔ سلطان محمد ثانی خود اگلے مورچوں پر موجود تھے۔ حفاظتی دیواروں پر تین مخصوص مقامات پر گولہ باری جاری تھی۔سلطان محمد ثانی نے اپنے سپاہیوں کو مخاطب کیا اور گرجدار آواز میں بولے: “میرے دوستو اور بچو، آگے بڑھو، اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع آگیا ہے” اسکے ساتھ ہی عثمانی دستے آگے بڑھے اور حفاظتی دیواروں کے کمزور حصوں پر دھاوا بول دیا۔ رات کی خاموشی میں عثمانی ترکوں کا شور ایسا تھا کہ پورا شہر لرز اٹھا تھا۔ ایک اطالوی طبیب نکولو باربیرو اس وقت قسطنطنیہ میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ :”سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور شیروں کی مانند حملہ کرتے اور انکے نعروں اور طبلوں کا شور ایسا فلک شگاف تھا جیسے یہ کسی اور ہی دنیا کے ہوں”- صبح ہوئی تو پوری دنیا نے دیکھا کہ قسطنطنیہ پر عثمانی پرچم لہرا رہا تھا۔
خلافت عثمانیہ میں قسطنطنیہ کیسا تھا؟
قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان محمد غازی کو سلطان محمد فاتح کہا جانے لگا۔ جبکہ انہوں نے خود اپنے لیے قیصرروم کا لقب اختیار کیا۔ قسطنطنیہ کو سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ شہر کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیر نو کی گئی۔ نکاسی کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ توپ قاپی محل کی تعمیر بھی اسی عرصے میں کی گئی۔ یہ محل کئی عثمانی سلاطین کی رہائش گاہ بھی رہا۔ آج اسے میوزیم کا درجہ حاصل ہے۔ شہر سے بھاگ جانے والوں کو واپس بلایا گیا، نہ صرف مسلمانوں ، بلکہ یہودیوں اور christians کو بھی یہاں آباد کیا گیا۔ پوری دنیا سے تاجر، کاریگر، مصور، اور دیگر ہنرمند یہاں کا رخ کرنے لگے۔مساجد، محلات، قلعے اور ایک مدرسہ بھی تعمیر کروایا گیا ۔ یہ مدرسہ آج بھی استنبول یونیورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔ سلطان فاتح نے آیا صوفیہ گرجا گھر کو بھی مسجد کا درجہ دیدیا۔ سلطان فاتح کے بعد انکے بیٹے سلیم اول بھی انہی کی طرح بہادر تھے۔ جب انہوں نے خلافت عثمانیہ کا تخت سنبھالا تو جلد ہی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دئیے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں قسطنطنیہ کی حفاظتی دیواروں کو اتنا مضبوط کرلیا گیا تھا کہ پورے یورپ میں اسکی مثال نہیں ملتی تھی۔قسطنطنیہ کا شمار یورپ کے بڑے شہروں میں ہوتا تھا، اسکی کل آبادی سولہویں صدی میں ڈھائی لاکھ جبکہ لندن شہر کی آبادی صرف پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ پندرہ سو سترہ میں سلطنت عثمانیہ ناصرف ترکی بلکہ مصر کے مملوکوں کو شکست دے کر مصر، موجودہ عراق ، شام، فلسطین ،اردن اور حجاز کو اپنے کنٹرول میں کر چکی تھی۔ حجاز کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا کر سلیم اول مسلم دنیا کے سب سے طاقتور حکمران بن چکے تھے۔ اسی لئے انکو عثمانی سلطنت کا پہلا خلیفہ بھی مانا جاتا ہے۔ اس دور میں قسطنطنیہ مسلمانوں کا مرکزی شہر بن گیا تھا۔ ان کے بعد سلطان فاتح کے پوتے سلیمان عالیشان نے تخت سنبھالا۔ یہ وہی سلطان ہیں جنکو ترکی ڈرامے میرا سلطان میں دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے قسطنطنیہ میں کئی ایک مساجد تعمیر کروائیں ۔ ان میں سیلیمانیہ مسجد، خسرو پاشا مسجد، شہزادہ مسجد وغیرہ شامل ہیں ۔
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور قسطنطنیہ سے استنبول
عثمانی ترک چار صدیوں تک تین براعظموں، یعنی یورپ، ایشیا، اور افریقہ کے کچھ حصوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس سلطنت کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ اٹھارویں صدی میں قسطنطنیہ کی آبادی پانچ لاکھ ستر ہزار نفوس کے لگ بھگ ہوچکی تھی۔ لیکن پھر انیسویں صدی شروع ہوئی – شہر میں کئی طرح کی اصلاحات کی گئیں ۔ جدید سہولیات جیسا کہ بجلی، ٹیلیفون ، اور ریلوے ٹریز شہر میں متعارف کروائیں گی۔ لیکن دوستو ان سب کے ساتھ ساتھ سلطنت میں انقلاب کی صدائیں بھی کہیں کہیں بلند ہو رہی تھیں ۔اور قسطنطنیہ میں اندرونی بغاوتیں بھی سر اٹھانے لگی تھیں۔رہی سہی کسر جنگوں نے پوری کر دی۔ بیسویں صدی میں اطالیہ -ترک جنگ، ا ور بلقان کی جنگوں سے خلافت عثمانیہ مزید مشکلات سے دوچار ہوگئی۔ جنگ عظیم اول میں ترکی نے بھی حصہ لیا اور جرمنی کا ساتھ دیا۔ شکست کے بعد ایک معاہدہ طے پایا اور عارضی طور پر برطانیہ ، فرانس، اٹلی اور یونان اتحادیوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرلیا۔ ترک قوم پرستوں نے انقرہ میں ترکی کی قومی اسمبلی میں یکم نومبر انیس سو بائیس کو خلافت عثمانیہ کو ختم کردیا -انیس سو تئیس میں معاہدہ لوازن پر دستخط ہوئے اور اتحادی افواج قسطنطنیہ سے روانہ ہونے لگیں ۔ چھ اکتوبر انیس سو تئیس کو ترک فوج شہر میں داخل ہوئی اس دن کو استنبول کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انتیس اکتوبر کو ترک جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا اور مصطفی کمال اتاترک اسکے پہلے صدر بنے۔ قسطنطنیہ کا نام تبدیل کرکے اسلام بول رکھا گیا جو ترک لہجے میں بگڑ کر استنبول بن گیا۔ مصطفی کمال اتاترک نے آیا صوفیہ کو ایک میوزیم کا درجہ دیدیا جسے عثمانی دور میں مسجد بنا دیا گیا تھا۔ ترکی ایک سیکولر جمہوریہ بن گیا اور خلافت عثمانیہ کا قسطنطنیہ تاریخ میں کہیں کھو گیا۔
استنبول ایک میٹروپولیٹن شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بھی ترکی ایک سیکولر ریاست ہے البتہ دو ہزار بیس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے آیا صوفیہ کو ایک بار پھر مسجد میں تبدیل کر کے پوری مسلم امہ کا جوش بڑھا دیا اور سلطنت عثمانیہ کی چار سو سولہ دور کی یادیں تازہ کردیں۔