دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل قطر ایک صدی پہلے اتنا ہی غریب تھا، جتنا غریب آج صومالیہ ہے۔ فی کس آمدن کے لحاظ سے عالمی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود قطر کے اکثر شہری ایک صدی پہلے تک دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے تھے۔ پھر مجبوراً انہیں اپنے ملک سے ہجرت بھی کرنا پڑی۔ ایک صدی پہلے قطر ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستہ ہوا کرتا تھا لیکن پھر تقدیر کا دھارا ایسا بدلہ کہ ۔۔ قسمت کا دھنی قطر اتنا امیر کیسے ہوا؟ اس کے پاس آج کتنی دولت ہے؟ اور اس کے شہریوں کو کون کون سی ایسی سہولیات دستیاب ہیں، جو دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں ہی شہریوں کو مل رہی ہیں؟
قطر تیل اور گیس ملنے سے پہلے
قطر کی تاریخ اور جغرافیہ سے۔۔ قطر میں انسانوں کی موجودگی کے شواہد تو ہزاروں سال پرانے ملے ہیں لیکن یہاں باقاعدہ آبادکاری 2200 سال پہلے ہی ہوئی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی تک اس ملک کا نام قطارہ Catara تھا۔ جو مزید نکھرنے کے بعد قطر ہوگیا۔ یہ ملک مختلف ادوار میں سلطنتِ ایران، خلافتِ راشدہ اور سلطنتِ امویہ کا حصہ رہا۔ اموی دور میں اس خطے کو گھوڑوں اور اونٹوں کی افزائش کے حوالے سے کافی اہمیت حاصل رہی۔ اس کے بعد 8 ویں صدی عیسوی میں یہ ایک اہم بحری تجارتی راستہ بن گیا۔ عباسیوں نے قطر کو تجارتی مرکز بنایا اور پھر یہاں پتھروں سے بھی گھر بنائے جانے لگے۔ قطر کو اپنے موتیوں یعنی پرلز pearls کی وجہ سے بھی کافی شہرت ملی اور 1320 میں جب قطر سلطنتِ ہرمز کے پایہ تخت کے زیرِاثر آیا تو انہوں نے یہی موتی خراج کی صورت میں قطریوں سے حاصل کرنا شروع کردئیے تھے۔ 1788 تک قطری علاقوں پر کبھی پرتگالیوں تو کبھی ترکوں کا قبضہ رہا۔ مختلف قبائلی خاندان بھی وقتاً فوقتاً قطر اور بحرین کے مختلف علاقوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ اس کے بعد سعودی شاہی خاندان کے بانی سعود بن عبدالعزیز نے اپنی سلطنت کو پھیلایا اور نا صرف خلیج فارس کے مختلف علاقوں بلکہ قطر پر بھی قبضہ کرلیا۔۔قطر کے حالات اس لئے بھی خراب ہی رہے کہ یہ خطہ کئی سال تک عثمانیوں، سعودیوں اور مصریوں کے درمیان خانہ جنگی کا مرکز بنا رہا۔1821 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بحری جہازوں نے بحری قذاقوں کو سزا دینے کا بہانہ بنا کر دوحہ پر بمباری کردی، جس سے یہ قصبہ تباہ ہو گیا اور ہزاروں افراد نقل مکانی کرگئے۔سلطنتِ برطانیہ نے اپنے قبضے کی بنیاد اسی حملے سے رکھ دی تھی۔ اس صدی میں قطر کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا تھا۔ قطر نے دھاری دھار کپڑوں کی تیاری میں اپنا نام بنایا جبکہ ماہی گیری یہاں کے لوگوں کا دوسرا بڑا پیشہ تھا، کچھ لوگ جو ان غریبوں میں ذرا امیر تھے وہ بہت ہی محدود پیمانے پر تجارت کرتے تھے۔ پیٹ پالنے کیلئے گلہ بانی اور کاشتکاری بھی کی جاتی تھی۔
پھر 1825 میں وہ خاندان ایک علاقائی لیڈر کے طورپر ابھر کر سامنے آیا جو آج بھی قطر پر حکمرانی کررہا ہے یہ تھا الثانی خاندان۔ جس کے پہلے لیڈر شیخ محمد بن الثانی تھے۔ 1867 میں بحرین اور قطر کی جنگ ہوئی اور 1868 میں سعودی خاندان نے قطر کا کنٹرول الثانی خاندان کے حوالے کردیا۔ 1871 میں قطر ایک بار پھر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنا تاہم الثانی خاندان کی عثمانی ترکوں اور اپنے ہی ہمسایوں سے لڑائیاں بھی چلتی رہیں۔ 1916 میں سلطنتِ برطانیہ نے قطر پر قبضہ جما لیا۔۔جو 1971 تک برقرار رہا۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایک صدی قبل، یعنی 1922 میں اس ریاست کی آبادی 30 لاکھ کے قریب اور رقبہ 12 ہزار کلومیٹر کے ہی لگ بھگ تھا، لیکن یہ چھوٹی خلیجی ریاست عملی طور پر غیر آباد سرزمین تھی کیونکہ یہاں رہنے والوں کی اکثریت خانہ بدوش تھی اور قطر کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ یہ صورتحال 1930 کی دہائی میں اس وقت اور بھی سنگین ہوگئی جب جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ کا طریقہ ایجاد کرلیا اور اس صنعت کو اتنی ترقی دی کہ قطری معیشت کو تباہ وبرباد ہی کر دیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر قطرسے تاریخی نقل مکانی ہوئی اور 1930 سے 1940 تک کی دہائی میں قطر کے 30 فیصد باشندے ملک چھوڑ گئے۔بات اتنی بگڑی کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 1950 میں قطر کی آبادی صرف 24 ہزار نفوس پرمشتمل رہ گئی تھی۔ ان لوگوں نے زیادہ ترخلیجی ریاستوں اورایران کا ہی رخ کیا تھا۔۔
قطر تیل اور گیس ملنے کے بعد!
بلیک گولڈ یعنی تیل نے صرف خلیجی ممالک کی ہی تقدیر نہیں بدلی بلکہ اس نے صنعتی انقلاب لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا نے ترقی کی جتنی منازل بلیک گولڈ کی دریافت کے بعد طے کی ہیں، ان کی مثال ہزاروں سال کی جدید انسانی زندگی میں نہیں ملتی۔ گوکہ چینی ماہرین نے 600 قبلِ مسیح میں ہی تیل دریافت کرلیا تھا لیکن امریکی ریاست پنسلوانیا میں 1859 میں تیل کی دریافت نے دنیا کی معاشی تاریخ کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ خیلجی ممالک میں سب سے پہلے سعودی عرب میں 1938 میں امریکی کمپنی نے تیل دریافت کیا۔دوسری جانب ایران میں اس سے پہلے ہی 1908 میں تیل دریافت ہوچکا تھا۔ قطر کی قسمت 1939 میں کھلی جب ملک کے جنوب مغربی علاقے جبلِ دُخان Jebel Dukhan میں تیل دریافت ہوگیا۔ تاہم دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے تیل کی تلاش کچھ تاخیر کا شکار ہوگئی اور دوسرا کنواں 1941 میں کھودا گیا۔ اس کے بعد 1942 میں قطر میں تیل کی تلاش کا کام روک دیا گیا، جو 1947 تک رکا رہا۔ اس وقت کی غریب قطری حکومت جو پہلے ہی بڑی مشکل سے کھدائی کرنے والے انجینئرز اور دوسرے ملازمین کی تنخواہیں پوری کررہی تھی، وہ مزید معاشی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ گوکہ اس پر حکمرانی کرنے والے تاجِ برطانیہ نے اس دوران اس کی کافی مدد کی لیکن معاشی مشکلات میں گھری قطری حکومت مشکلات میں دھنستی چلی گئی۔اس وقت قطر کو غربت کے ساتھ ساتھ ایک اور مشکل کا بھی سامنا تھا اور وہ یہ تھی کہ اس کے شہری غربت کی وجہ سے تیزی سے قطر سے ہجرت بھی کر گئے تھے، یوں اس کے پاس افرادی قوت بھی کم ہوگئی۔مسائل اس وقت اور بڑھ گئے، جب انہی دنوں میں قطرکی زوبارہ Zubarah کی ملکیت کے معاملے پر بحرین سے جنگ بھی ہوگئی، یہ علاقہ آج قطر کا ہی حصہ ہے۔ اسے شاہی خاندان کے بانی شیخ محمد بن خلیفہ نے آباد کیا تھا۔ جنگ اور مالی مشکلات کی وجہ سے پریشانی اتنی بڑھ گئی کہ قطر کے حکمران شیخ عبداللہ بن جاسم الثانی کو پیسوں کیلئے اپنا محل بھی گروی رکھنا پڑا۔۔ جنگ عظیم کے بعد قطر میں تیل کے ذخائر کی دریافت کیلئے سروے کرایا گیا اور 1947 میں مکمل ہونے والے اس سروے کی بنیاد پر 1949 میں قطر میں وسیع پیمانے پر تیل نکالنے کا کام شروع کردیا گیا، تیل کے بڑے بڑے ذخائر دریافت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے قطر کی تقدیر بدل گئی۔ قطر بڑی مقدار میں تیل برآمد کرنے لگا۔۔بلیک گولڈ کے وسیع ذخائر کا سن کر سرمایہ کار قطر میں سرمایہ کاری کیلئے بھاگے چلے آئے۔ ملک میں روزگار کے مواقعوں میں ایک دم تیزی آگئی اور ناصرف ملک سے غربت کی وجہ سے ہجرت کر جانے والے واپس آگئے بلکہ ایشیائی ممالک سے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد نے بھی قطرکا رخ کرلیا۔ اس کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کی فی کس آمدن چند ڈالرز سالانہ سے پہلے سینکڑوں اور پھر ایک دہائی میں ہزاروں ڈالرز میں چلی گئی۔ایک اندازے کے مطابق وہ ملک جس کی آبادی 1950 میں صرف 24 ہزار افراد تک محدود رہ گئی تھی، 1970 میں وہی آبادی ایک لاکھ نفوس سے بھی تجاوز کرگئی۔ایسا لگ رہا تھا کہ قدرت قطر پر بہت ہی زیادہ مہربان ہے کیونکہ 3 ستمبر 1971 کو قطر نے تاجِ برطانیہ سے آزادی بھی حاصل کرلی ۔۔ اس سے اگلے ہی سال یعنی 1972 میں قطر کی قسمت اس وقت دو چند ہو گئی جب ملک کے شمال مشرقی ساحل کے قریب کھدائی کے دوران گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوگئے۔ پہلے پہل لوگوں نے گیس کے ذخائر کو زیادہ اہمیت نہ دی تاہم 14 سال بعد پتہ چل گیا کہ یہ گیس فیلڈ دنیا کا سب سے بڑا ’نان ایسوسی ایٹڈ‘ قدرتی گیس فیلڈ تھا، جس میں دنیا کے گیس ذخائر کا تقریباً 10 فیصد حصہ موجود تھا۔قطر کا نارتھ فیلڈ تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کے رقبے پر مح یط ہے، جو پورے قطر کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ روس اور ایران کے بعد عملی طور پر قطر کے پاس دنیا کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ہے، تاہم یہ دونوں ممالک رقبے اور آبادی کے لحاظ سے قطر سے بہت بڑے ہیں اور ان کی اپنی ضروریات بھی بہت زیادہ ہیں۔آج، “قطر گیس” دنیا میں سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس یعنی ایل این جی پیدا کرنے والی کمپنی ہے۔قطر گیس پیدا کرنے میں دنیا بھر میں تیسرے مگر گیس برآمد کرنے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ دوسری جانب وہ تیل کی پیداوار میں دنیا بھر میں چودہویں نمبر پرہے۔ یوں قطر کل ملکی آمدن کا 70 فیصد صرف تیل اور گیس سے ہی حاصل کرتا ہے۔
70ء کی دہائی میں قطر، بحرین اور یواے ای نے یکے بعد دیگرے سلطنتِ برطانیہ سے آزادی حاصل کرلی تھی۔ اس کے بعد اس خطے کا سب سے اہم ایونٹ 1991 کی خلیجی جنگ تھی۔ جس میں قطر نے سعودی عرب کا ساتھ دیا تاہم مختلف علاقائی ایشوز جن میں بحرین کا مسئلہ سب سے نمایاں ہے پر سعودی عرب اور قطر کی آج بھی نہیں بنتی۔ اسی طرح الجزیرہ کی آزادانہ پالیسیوں سے بھی سعودی حکام ناراض ہی رہتے ہیں۔ قطر کی بحرین کے علاوہ یواے ای، یمن، لیبیا اور مصر کے ساتھ بھی چپقلش چلی آرہی ہیں۔۔
1995 قطری خاندان کی تاریخ میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس سال حماد بن خلیفہ الثانی نے اپنے والد خلیفہ بن حماد الثانی سے اقتدار چھین لیا اور لبرل اور ماڈرن قطر کی بنیاد رکھی۔ ان کی نئی حکومت کو امریکا، فرانس اور مغربی دنیا نے فوری طور پر خوش آمدید کہا، جس کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حماد بن خلیفہ کو والد کی حکومت کا تختہ الٹںے میں انہی ممالک کی مدد حاصل تھی۔ قطر سینٹرل بینک 1993 میں بنا تھا تاہم یہاں اسٹاک ایکسچینج 1997 میں قائم کی گئی۔ 1996 میں حماد بن خلیفہ الثانی نے خلیجی ممالک کا سب سے بڑا ٹی وی نیٹ ورک الجزیرہ ٹی وی لانچ کیا۔ 1999 میں انہوں نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔ 2005 میں قطر کا پہلا تحریری آئین بنایا گیا اور 2008 میں قطر میں پہلا رومن کیتھولک چرچ بھی بنادیا گیا۔
جدید قطر!
21 ویں صدی قطر کی ترقی کیلئے نیا پیغام لے کر آئی اور ملک انتہائی تیزی سے اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر چلنے لگا، ساڑھے 11ہزار سے زائد مربع کلومیٹر رقبے کے حامل اس ملک کی آبادی 29 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ حیران کن طور پر نسلی قطریوں کی قطر میں تعداد 10 سے 15 فیصد کے لگ بھگ ہے، ان میں عرب اور افریقی نسلوں کے قطری بھی شامل ہیں۔ حیران کن طور پر 2019 کے ایک سروے کے مطابق یہاں 25 فیصد بھارتی رہتے ہیں، جبکہ نیپالیوں اور بنگالیوں کی تعداد 12،12 فیصد سے زائد ہے۔ قطر میں صرف 5 فیصد پاکستانی رہتے ہیں۔ سرکاری طور پر قطر میں 68 فیصد مسلمان ہیں جبکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی تعداد 14،14 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ آج قطر میں آپ کو ہر گلی میں ترقی کی جھلک نظر آئے گی۔۔کیونکہ صرف 2003 اور 2004 کے درمیان شرح نمو یعنی جی ڈی پی 3.7 فیصد سے بڑھ کر 19.2 فیصد پر چلی گئی، یہی نہیں صرف دو سال بعد 2006 میں معیشت نے قطر کی تاریخ میں بلند ترین سطح یعنی 26.2 فیصد کی شرح سے ترقی کی۔2007 سے 2011 کے برسوں میں بھی ترقی کی شرح 10 فیصد سے زائد ہی رہی لیکن اس کے بعد آئندہ 9 سال میں ترقی کی یہ شرح 2 فیصد تک آگئی۔ تاہم اب یہ ایک بار پھر 2022 میں 5 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وہ ملک جو 1940 تک غربت کا شکارتھا۔1980 میں اس کی مجموعی قومی پیداوار 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔جبکہ اس کی فی کس آمدن 72 ہزار ڈالر سے کچھ زائد تھی۔اس صدی کے پہلے سال یعنی 2001 میں اس کی مجموعی قومی پیداوار 55 ارب ڈالرز اور فی کس آمدنی 90 ہزار ڈالر ہوگئی تھی۔ترقی کا پہیہ چلتا رہا اور 2022 میں مجموعی قومی پیداوار 304 ارب ڈالرز اور فی کس آمدنی ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہاں ہفتے میں پانچ دن ہفتہ سے بدھ تک کام ہوتا ہے۔ قطر میں لوگوں کی آمدن پر انکم ٹیکس اور مختلف سورسز یا اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس لاگو نہیں کیا جاتا۔۔ قطر تیزی سے ترقی تو کررہا ہے لیکن یہاں لیبر یونین یا ایسوسی ایشن بنانا غیرقانونی ہے۔
قطر کو جدید ملک بنانے کیلئے جو پودا حماد بن خلیفہ الثانی نے لگایا تھا۔ اسے 2013 میں اقتدار سنبھالنے والے ان کے بیٹے شیخ تمیم بن حماد الثانی نے تناور درخت بنا دیا ہے۔ قطر میں انٹرنیٹ کی سہولت عوام کو 1996 میں مہیا کرد گئی تھی۔ لیکن غیرملکی یونیورسٹیوں کے آن لائن کیمپسز زیادہ تر رواں صدی میں ہی کھلے ہیں۔ سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک میں تعلیم کی سہولت ایک لیول تک فری یا بہت سستی ہے لیکن قطر میں تعلیم ہر لیول پر بالکل مفت ہے۔ قطر کے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مخلوط تعلیم کا نظام رائج نہیں۔کئی انٹرنیشنل سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کیمپسز بھی قطر میں موجود ہیں، حیران کن طور پر یہاں پہلا سکول 1949 میں بنا تھا، اس وقت ملک میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زائد ہے۔ قطر میں ناصرف تمام شہریوں کو صحتِ عامہ کی سہولیات مفت دستیاب ہیں بلکہ ان افراد کو بھی یہ سہولت دی گئی ہے جنہیں غیرملکی ہونے کے باوجود سرکاری رہائش دی جاتی ہے۔ خوشحالی کی وجہ سے یہ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں اور قطر دنیا کے محفوظ ترین ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
قطر میں کوئی ریلوے سسٹم نہیں تاہم سکائی ٹریکس نے 2022 میں حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو دنیا کا بہترین ایئرپورٹ اور قطر ایئرویز کو دنیا کی نمبرون ایئرلائنز قرار دیا تھا۔
قطر میں کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ پہلے پارلیمانی انتخابات 2021 میں منعقد ہوئے، جس میں جیتنے والے تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، یہاں خواتین الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں۔ قطر میں ہر 18 سال یا اس سے زائد عمر کے شہری پر رضا کارانہ طورپر فوجی سروس کا حصہ بننے کا قانون لاگو ہے۔ جبکہ اس کی آرمی صرف 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک ان ابتدائی 40 ملکوں میں شامل ہے جو اپنے دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اس کا دفاع پر خرچہ 6 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ
قطرکا شاہی خاندان جو کبھی اپنا گھربھی گروی رکھنے پر مجبور تھا۔ آج دنیا کے ٹاپ فائیو شاہی خاندانوں میں شامل ہے اور جس کی دولت کا اندازہ 300 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔
جدید قطر کی قسمت کا ستارہ اس وقت ایک بار پھر چمکا۔۔ جب 2010 میں اسے دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹبال کے میگا ایونٹ یعنی ورلڈکپ کی میزبانی مل گئی اور اس نے 220 ارب ڈالر کی لاگت سے ایسا انفراسٹرکچر تیار کیا کہ مغربی دنیا بھی دنگ رہ گئی ہے۔ قطر اپنی فلک بوس عمارتوں، پرتعیش مصنوعی جزیروں اور جدید ترین سٹیڈیمز کے باعث دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کرچکا ہے۔ اور آخر میں آپ کو سب سے دلچسپ بات بھی بتادیں کہ قطر میں خواتین کی تعداد اتنی کم ہے کہ تین مردوں کے مقابلے میں ایک خاتون ہے، اس لئے قطریوں کو دوسرے ملکوں میں شادیاں کرنا پڑتی ہیں۔