Home Interesting Facts چین صحراؤں پرکیسے قابو پارہا ہے؟ سُرخ چین میں سبز انقلاب

چین صحراؤں پرکیسے قابو پارہا ہے؟ سُرخ چین میں سبز انقلاب

by Adnan Shafiq
0 comment

چین نے 1949  میں سرخ انقلاب سے ملک میں سیاسی نظام بدلا تھا اور اب 2050  تک یعنی 100 سال میں اس نے  سبز انقلاب سے ماحولیاتی نظام تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، چین میں اس منصوبے کا نام گریٹ گرین وال آف چائنہ رکھا گیا ہے، جو 1978 سے جاری ہے اور اس منصوبے کے تحت جہاں 100 ارب تک درخت لگائے جائیں گے وہیں لاکھوں مربع کلومیٹر صحرائی اور بنجرزمین کو قابلِ کاشت بھی بنایا جائے گا۔ صحرا کو پھیلنے سے روکنے اور ماحول دوست بنانے کیلئے شمال مشرق سے شمال مغرب تک 5 ہزار کلومیٹر لمبی اور بعض مقامات پر ساڑھے 14 سو کلومیٹرچوڑی گرین وال بنائی جائے گی۔ جس پر ابتدائی لاگت کا تخمینہ 33 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔گریٹ گرین وال آف چائنہ کیوں بنائی جارہی ہے؟ اس کا چین کو کیا کیا فائدہ ہوگا؟ چین کے اس منصوبے پر چینی حکومت کے علاوہ کون کون سرمایہ کاری کررہا ہے؟ اور چین نے اگر کامیابی سے منصوبہ مکمل کرلیا تو دنیا پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ یہ جانتے ہیں اس رپورٹ میں ۔۔۔

چین میں صحرا کتنا بڑا؟

دنیا کا کم و بیش 20 فیصد رقبہ صحراؤں پرمشتمل ہے۔ تاہم چین میں یہ رقبہ اس کے کل زمینی رقبے کا ایک تہائی کے قریب یعنی 30 فیصد ہے، جو تقریباً 26 لاکھ مربع کلومیٹر بنتا ہے۔  یہ صحرائی رقبہ پاکستان کے رقبے  سے تقریبا” 3 گنا ہے۔ چین میں 13 چھوٹے بڑے صحرا ہیں، سب سے بڑے صحرائے گوبی Gobi کا رقبہ 13 لاکھ مربع کلومیٹر سے کچھ کم ہے اوریہ دنیا کا چھٹا بڑا صحرا ہے، یہ صحرا تقریباً آدھا چین میں اور آدھا منگولیا میں ہے۔ چین کا دوسرا بڑا صحرا۔۔ صحرائے ٹاکلا ماکان Taklamakan ہے، جو 3 لاکھ 37 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ دونوں بڑے صحرا ملک کے شمال میں شمال مشرق سے شمال مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گریٹ گرین وال آف چائنہ کا سرکاری سطح پرنام تھری نارتھ شیلٹر بیلٹ پروگرام Three-North Shelterbelt Program رکھا گیا ہے۔ چین نے یہ منصوبہ 1978 سے شروع کررکھا ہے اور اس میں صرف چینی حکومت اور چینی شہری ہی پیسہ نہیں لگا رہے بلکہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ ایف اے او یعنی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن بھی اس کام میں چین کی بھرپور مدد کررہا ہے۔چین گزشتہ کئی دہائیوں سے صحراؤں کے پھیلاؤ کا شکار ہے۔ ملک کے شمال میں صحرائے گوبی، صحرائے ٹاکلا ماکان اور صحرائے کوبوچی Kubuqi میں آنے والے ریت کے طوفانوں کی وجہ سے زرخیز زمینوں پر کبھی ریت کی موٹی تہہ جم جاتی ہے یا پھر وہ زمین کی Top Soil کو کمزورکردیتی ہے۔ دونوں صورتوں میں اس زمین پر کوئی فصل کاشت کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، یہی نہیں ان بڑے صحراؤں کی وجہ سے چین کے دو بڑے شہر شنگھائی اور بیجنگ بھی شدید متاثر ہورہے ہیں، جہاں ان صحرائی علاقوں سے آنے والے گرد آلود ہواؤں کی فضائی آلودگی سے کروڑوں افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ چین نے شہروں کی سرحدوں پر ریت کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ریت کے طوفان ناصرف سڑکوں کو آمدورفت کے قابل نہیں رہنے دیتے بلکہ بعض علاقوں میں تو رن ویز پر پروازوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس صورتحال کی روک تھام کیلئے چین جہاں ٹیکنالوجی کا بھرپوراستعمال کررہا ہے۔

چین کا صحراؤں سے کڑا مقابلہ

چین نے ملک میں سبز انقلاب لانے کیلئے کئی قوانین بھی مرتب کئے ہیں، حکومت نے 11سال سے زائد عمر کے ہر بچے اور بڑے کیلئے سال میں تین پودے لگانا لازمی قرار دے دیا ہے۔ ملک کی بیوروکریسی ہی نہیں بلکہ وزرا بھی شجر کاری مہم میں حصہ لینے کے پابند ہیں۔ رضا کاروں کی تو پوری فوج صحرائی صورتحال کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے۔ یہی نہیں جولوگ خود اس مہم میں جسمانی طورپر Physically حصہ نہیں لے رہے، وہ مالی مدد کرکے بھی سبز انقلاب میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف جہاں 40 کروڑ لوگ صحرائی صورتحال سے متاثر ہیں تو دوسری طرف 50 کروڑ کے قریب افراد ملک کا ماحول بدلنے کی تحریک میں شریک ہوچکے ہیں۔ چین نے صحراؤں کو شکست دینے کے منصوبے کے تحت سالانہ 4500 مربع کلومیٹر کا رقبہ فتح کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ صحرا اب بھی سالانہ 3600 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ جما رہا ہے۔ چین گزشتہ چند سال سے سالانہ اتنے درخت لگا رہا ہے کہ جتنے پوری دنیا میں مجموعی طورپر نہیں لگ سکے ہیں۔ چین نے 2030 تک 70 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ اس کو امید ہے کہ وہ 2050 تک 100 ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کرلے گا۔ گریٹ گرین وال آف چائنہ دنیا میں سب سے بڑا مصنوعی جنگل لگانے کا منصوبہ ہے اور عزم، جنون اور ہمت سے بھرپور چینی قوم یہ کارنامہ سرانجام دینے کیلئے مکمل طورپرتیارہے۔  چین کا کل رقبہ 97 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اور وہ رقبے کے لحاظ سے روس اور کینیڈا کے بعد  دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ آبادی کے لحاظ سے اس کا دنیا بھر میں پہلا نمبر ہے۔ یہاں ایک ارب 45 کروڑ سے زائد افراد بستے ہیں، جن میں سے 40 کروڑ افراد کا صحرائی صورتحال سے متاثر ہونا انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ یہ آبادی امریکا کی کل آبادی سے بھی  کافی زیادہ ہے۔ چین کے شمالی صوبوں میں صحرائی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ یہاں آبی کٹاؤ سے بھی 18 لاکھ مربع کلومیٹررقبہ بنجر ہوا ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، یہ رقبہ پاکستان کے دوگنے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ چین مجموعی زرعی پیداوار میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پرضرور ہے لیکن اس کا صرف 13 فیصد رقبہ ہی زرعی مقاصد کیلئے دستیاب ہے۔ چین حیران کن طورپر 30 فیصد رقبہ صحرائی صورتحال کا شکار ہونے کے باوجود زرعی پیداوار میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ 2019 میں چین نے 133 ارب ڈالرز سے زائد کی زرعی اجناس برآمد کی تھیں، یوں وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس شعبہ میں دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن گیا۔ ایف اے او کے مطابق چین سالانہ ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالرزکی زرعی پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے زیرکاشت رقبے میں سے صرف 10 فیصد کا مالک ہے لیکن یہ دنیا کی مجموعی زرعی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کررہا ہے اورماہرین کے مطابق اگراس نے لاکھوں ایکڑ صحرائی زمین کو زرخیز زمین میں بدل لیا تو چین مزید کروڑوں افراد کو خوراک کی سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔۔۔

  چین میں صحراؤں کو نخلستان بنانے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں جن سے ڈیزرٹی فکیشن Desertification  کو انتہائی کامیابی سے روکا جارہا ہے اور لاکھوں ایکڑ صحرائی زمین کو قابلِ کاشت زرعی زمین میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس انقلاب میں چین کی کامیابی سے دنیا کے ان تمام ممالک کو فائدہ ہوگا جنہیں صحرائی صورتحال کا سامنا ہے، خاص کر ایشیا میں 50 کروڑ سے زائد افراد مستفید ہوسکتے ہیں۔  

سیلولوز کی تیاری

چین نے صحرائی زمین کی نیچر Nature تبدیل کرنے کیلئے جو سب سے اہم طریقہ اپنایا ہے، اس میں حیران کن طور پر چینی اور پاکستانی ماہرین مل کر کام کررہے ہیں۔۔اور وہ طریقہ ہے سیلولوز Cellulose بنانے کا۔ سیلولوز ایک ایسا مالیکیول ہے، جس میں کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹم اکثر اوقات سیکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں میں ہوتے ہیں۔۔ سیلولوز پودوں کے خلیوں کی دیواروں کی تشکیل کیلئے ایک اہم ترین مادہ ہے۔ انسان سیلولوز کو ہضم نہیں کرسکتا، لیکن یہ غذا میں فائبر کے طور پراہم ہے۔۔ سیلولوزکی مدد سے جو مادہ تیار کیا جاتا ہے، اسے سوڈیم کاربوکسی میتھائل سیلولوز sodium carboxymethyl cellulose کہا جاتا ہے۔ جس میں کھاد بھی شامل کی جاتی ہے اور پھر اس خصوصی طورپر تیار کردہ مادے کو صحرائی زمین میں ڈال دیا جاتا ہے، جس کے بعد اس میں پودے لگائے جاتے ہیں اور پھر زمین گھاس بھی پیدا کرنا شروع کردیتی ہے، جس سے زمین سخت ہوتی جاتی ہے اور وہ ناصرف ریت کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتی ہے بلکہ وہ ٹاپ سول Top soil کی حفاظت کرکے قابلِ کاشت زمین کو محفوظ بھی رکھتی ہے۔چینی محققین نے سیلولوز کے اس مادے کو صرف صحرائے گوبی اور صحرائے ٹاکلاماکان میں ہی استعمال نہیں کیا، بلکہ اس مادے یا پیسٹ کو ملک کے دیگر علاقوں جیسے سنکیانگ اور سیچوان کے صوبوں میں بھی صحرا کیخلاف استعمال کیا جارہا ہے۔سیلولوز کے اس مادے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ افریقہ اورا یشیا کو قحط سالی جیسی سنگین صورتحال سے بچایا جاسکے گا۔  

پی ایل اے کا استعمال

زمین کو زرخیز بنانے کیلئے دوسرا اہم طریقہ پولی لیکٹک ایسڈ سینڈ بیریئرز polylactic acid sand barriers کا استعمال ہے۔  اس طریقہ کار میں ریت کو ایک فیبرک میں ڈال کر اس طرح بچھایا جاتا ہے کہ صحرا میں طوفان کی صورت میں ریت کی اوپری پرت یا ٹاپ سول خراب نہ ہو۔ یہ عمل کافی سستا اورآسان ہے۔ اس سے دستیاب پانی کو جمع کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔۔ پولی لیکٹک ایسڈ یا پی ایل اے کی رکاوٹیں 7 سے 8 سال تک کارآمد رہتی ہیں۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی نہایت آسان ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک  اور طریقہ صحرا کے راستے میں بڑے بڑے پتھر لگانا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پتھروں کے سرکل بناکر ٹکڑوں کی شکل میں بھی زمین کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ 

صحرا کا سبزے سے مقابلہ

صحرا کو قابلِ کاشت اور زرخیز بنانے کیلئے ایسے پودے اگانا جو مقامی آب و ہوا کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بھی ایک موثر طریقہ ہے۔ اس سلسلے میں لیکورائس Licorice یا ملٹھی کی مثال دی جاتی ہے جو زمین کو زرخیز بنانے میں اتنا معاون ہے کہ جہاں ایک ملٹھی کا پودا ہو اس کے اردگرد صفر اعشاریہ ایک یعنی 0.1 میٹرزمین زرخیز ہوجاتی ہے۔ ملٹھی کو عام ادویات کے علاوہ روایتی چینی دوائیوں میں بھی استعمال  کیا جاتا ہے۔ خاص کر گلے اور سینے کی بیماریوں میں۔۔ یہ ایک طرف زمین کو باندھ کر رکھتا ہے تو دوسری طرف معاشی لحاظ سے لوگوں کو اچھا روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ ملٹھی کو صحرائے کوبوچی Kubuqi میں بڑی کامیابی سے کاشت کیا گیا ہے۔۔ اسی طرح  جڑی بوٹیاں، مقامی گھاس اورجھاڑیاں بھی صحرا کے پھیلاؤ کو روکتی  ہیں۔ ان کی جڑوں کے جال زمین کو پختہ بنانے میں انتہائی کارآمد ثابت ہوتے ہیں، دوسرا انہیں لگانا بھی آسان ہوتا ہے۔ تربوز کی کاشت کو بھی ڈیرزٹی فکیشن کے خلاف مجرب نسخہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اسے پھلنے پھولنے کیلئے بہت ہی کم پانی درکار ہوتا ہے اور یہ باربار کاشت کئے جانے کی وجہ سے زمین کی زرخیزی میں مزید اضافہ بھی کرتے ہیں۔ 

صحرا میں جانورپالنے کا فائدہ

 صحراؤں میں جانوروں کو پالنے اور ان کے فارمز بنانے سے بھی زمین کو زرخیز بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ان کا فضلا زمین کیلئے کھاد کا کام کرتا ہے اور زمین کی سطح کو باندھ کر رکھنے کیلئے کافی اہم ثابت ہوتا ہے۔ اس سے صحرا میں کاشت کی گئی فصلیں، درخت اور جڑی بوٹیاں بھی فیض یاب ہوتی ہیں اور صحرا میں رہنے والوں کو خوراک کے حصول کا میسر ذریعہ بھی میسرآجاتا ہے۔۔ 

صحرائی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے چین صحراؤں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے بھی متعدد منصوبوں پرکام کررہا ہے۔ ان میں ہونگیا شان Hongyashan تو ایشیا میں کسی بھی صحرا میں بنایا گیا، سب سے بڑا ریزروائر Reservoir ہے۔ جو 14 کروڑ 80 لاکھ کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چینی ماہرین صحرائی علاقوں میں پانی کی کم دستیابی کے باوجود ڈرپ ایری گیشن  Drip  irrigation کا طریقہ استعمال کرکے بھی پانی کی بھرپوربچت کررہے ہیں۔۔ 

چینی ماہرین صحرائی زمین کو پختہ بنانے کیلئے تعمیراتی ملبے کو پیس کر صحرائی زمین میں ڈالنے کا بھی منصوبہ تیارکررہے ہیں جبکہ کھدائی کے بعد حاصل ہونے والی مٹی کو بھی انہیں علاقوں میں ڈالنے کا طریقہ بھی اختیارکیا جارہا ہے۔ چین میں چونکہ ترقیاتی کام نہایت تیزی سے جاری رہتے ہیں، اس لئے چینی ماہرین کوملبے کے استعمال سے بھی خاطر خواہ کامیابی ملنے کی امید ہے۔۔۔ 

 چینیوں نے  2009 تک صحراؤں کو شکست دیتے ہوئے 3 لاکھ مربع کلومیٹررقبے کو قابلِ کاشت بنادیا تھا، جو اب 2021 تک بڑھ کر 7 لاکھ مربع کلومیٹرہوگیا ہے۔ مگر چین کو صحرائی علاقوں کو زرخیز بنانے میں ایک بڑی مشکل کا بھی سامنا ہے۔۔ اور وہ یہ ہے کہ فی الحال چین  میں لگائے گئے مصنوعی جنگل بائیو لوجیکل سائیکل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں کی آماجگاہ نہیں بن رہے اوردرخت مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہورہے ہیں، ایسی ہی ایک بیماری نے صرف سن 2000 ء میں نِن گیشیا۔ Ningxia میں ایک ارب سے زائد درختوں کی جان نکال دی تھی۔۔ 

چین کی ترقی اس کی دشمن بھی

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ چین میں صنعتی ترقی، آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی کئی علاقوں میں صحرائی صورتحال پیدا کرنے میں بڑا کردارادا کیا ہے، شاید اسی وجہ سے چین نے 2020  میں زیرو کاربن پالیسی کا اعلان کیا اور یہ ہدف مقرر کیا ہے کہ وہ 2030 تک فضا میں کاربن کے بڑے اخراج کو ختم کردے گا، یہی نہیں بلکہ 2060 تک ملک کو کاربن فری بنا دیا جائے گا۔ چین نے 2030 تک کوئلے سے بجلی بنانے کے عمل کو بڑی حد تک روکنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن اس سے اس کی صنعتی ترقی رکنے بھی خدشہ ہے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق چین اب بھی دنیا میں کوئلے سے پیدا ہونے والی کل بجلی کا 56 فیصد اکیلا ہی پروڈیوس Produce کررہا ہے۔ چین نے فضا میں کاربن کی مقدار کو کم کرنے کیلئے ملک میں چلنے والی تمام گاڑیوں کو الیکٹرکسٹی  Electricity پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے جبکہ وہ پانی اور سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کے بڑے بڑے منصوبے بھی بنا رہا ہے۔ ۔ 

صحرا میں انوکھا شہر

دوسری جانب چین نے ٹاکلا ماکان ریجن میں ایک انوکھا شہربھی بسالیا ہے، ٹیز ہونگ  Taz hong نامی اس چھوٹے سے شہر میں تیل کے اتنے بڑے ذخیرے ہیں کہ یہ چین کی تیل کی ضروریات 10 سال تک پوری کرسکتے ہیں۔ تیل کے ذخیروں پر کام کرنے کیلئے اس شدید درجہ حرارت والے علاقے میں ایسا شہر بسایا جارہا ہے، جہاں ناصرف آپ کو درخت ملیں گے بلکہ پھول اور گھاس بھی نظرآئے گی۔ اس شہر کو مغربی دنیا بھی ایک انسانی معجزہ قرار دے رہی ہے کیونکہ یہاں زمینی درجہ حرارت 70 درجے سینٹی گریڈ تک اوپرچلا جاتا ہے۔ شہر دنیا کی توجہ کا مرکز تو بنا ہے لیکن یہ طے کیا گیا ہے کہ یہاں کی آبادی 20 ہزار افراد سے زائد نہیں ہوگی۔ اور اس کا رقبہ بھی کم ہی رکھا جائے گا۔ 

  حیران کن طور پر چین کی 90 فیصد سے زائد آبادی مشرقی سائیڈ میں رہتی ہے اور شمالی علاقے زیادہ تر غیرآباد ہیں۔ تاہم صحراؤں کیخلاف جنگ میں چین صحراؤں کا موسم بدلنے میں کامیاب ںظرآرہا ہے۔ درخت لگانے سے صحراؤں میں بارشوں میں اضافہ ہوا ہے اور موسم کسی حد تک ٹھنڈا بھی ہورہا ہے۔ 

 

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu