پاکستان میں ہر دو چار سال بعد ٹیکنو گورنمنٹ کی گونج سنائی دینے لگ جاتی ہے۔خاص کر ہر الیکشن سے پہلے عبوری یا ٹیکنو کریٹ حکومت کی بازگشت تو معمول بنادیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ یا ٹیکنو کریسی Technocracy کیا بلا ہوتی ہے کہ اسے ہر دو چار سال بعد ہر مسئلے کا حل قرار دے کر افواہوں کا بازار گرم کردیا جاتا ہے، کیا پاکستان کے آئین میں ایسی کسی حکومت کی گنجائش ہے بھی یا نہیں اور کیا دنیا میں کہیں ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ کا وجود ہے اور یہ نظام وہاں کتنا کامیاب ہے۔ ان سب باتوں کا احاطہ کریںگے۔
ٹیکنو کریٹ حکومت کیا ہوتی ہے؟
ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ ایسی حکومت کو کہتے ہیں جس میں اپنے اپنے شعبے میں کامیاب افراد اور ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے، یہ نظام جمہوریت کے بالکل منافی ہے، کیونکہ اس میں حکومت کرنے والوں کا انتخاب عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی فرد واحد یا ادارے کی ذاتی پسند یا نہ پسند کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکنو کریسی میں فیصلہ سازوں کا انتخاب سیاسی وابستگیوں، پارلیمانی مہارتوں یا مقبولیت کے بجائے خصوصی علم مہارت اور کسی خاص شعبہ میں ذاتی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ٹیکنو کریسی کی دو شکلیں ہیں۔ ایک میں پوری حکومت ہی ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ دوسری شکل میں حکومت کا کوئی ایک حصہ یا شعبہ ٹیکنو کریٹ ہوتا ہے، جیسے کہ بیوروکریسی میں ٹیکنوکریٹ لوگوں کو لگانا۔ مثلاً پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر سابق بیوروکریٹ کو بنایا گیا۔ حکومت میں ٹیکنوکریٹس کو شامل کرنا بھی شاید حکومتوں کی مجبوری رہی ہے، خاص کر گزشتہ 20 سال میں وزارتِ خزانہ کا شعبہ زیادہ تر شوکت عزیز، عبدالحفیظ شیخ، شوکت ترین، جیسے ٹیکنو کریٹس کے پاس رہا۔ حال ہی میں عمران خان کی حکومت میں اسد عمر کے بعد پہلے عبدالحفیظ شیخ اور پھر شوکت ترین کو وزیرِ خزانہ بنایا گیا، ڈاکٹرظفر مرزا اور ڈاکٹر فیصل سلطان وزیرِ صحت بنے۔ صنعتکار عبدالرزاق داؤد کو وزارتِ تجارت دی گئی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں شوکت ترین، سلمان بشیر اور ڈاکٹراشفاق احمد حکومت کا حصہ تھے۔
ٹیکنوکریسی کے حامی اسے میرٹوکریسی Meritocracy قرار دیتے ہیں، جس میں ہر اہم عہدے پر اہل شخص کو تعینات کیا جاتا ہے، جو مفادات کے ٹکراؤ کو روکتا ہے اور طویل المدتی اور دیرپا پالیسیاں بناتا ہے۔ جبکہ ٹیکنو کریسی کے مخالف جمہوریت پسند لوگ اسے اس لئے پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ عوام کی حقیقی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا براہ راست انتخاب۔اس نظام کو جمہوریت کی توہین بھی قرار دیا جاتا ہے۔
ٹیکنوکریسی کا تاریخی جائزہ
دوستو! ٹیکنو کریسی کا لفظ پہلی بار 1919 میں ایک امریکی انجینئر ولیم ہنری سمتھ William Henry Smyth نے استعمال کیا۔ان کے مطابق ٹیکنو کریسی ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی حکمرانی کو نوکرِشاہی، سائنسدانوں اور انجینئروں کے ذریعے موثر بنایا جاتا ہے۔اس کے بعد 1930 کی دہائی میں امریکہ اور کینیڈا میں ٹیکنو کریٹ موومنٹ کے نام سے تحریک بھی چلائی گئی۔اس تحریک کے نظریات تو کمیونسٹوں سے ملتے جلتے تھے لیکن اس تحریک کے بانیوں نے اسے ہر طرح کی سیاست اور کمیونسٹ ریولیوشن Communist Revolution سے الگ ہی رکھنے کی کوشش کی۔اس تحریک کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ ایک ہفتے میں کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے ہوں گے۔کام کرنے کی ذمہ داری ہر فرد پر لاگو نہیں ہوگی۔صرف 25 سال سے زائد عمر کے افراد ہی کام کریں گے اور وہ بھی 20 سال بعد یعنی 45 سال کی عمر میں پہنچ کر ریٹائر ہوجائیں گے۔۔ جو لوگ کام نہیں کریں گے، ان کی صحت، تربیت، رہائش اور خوراک سمیت ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔پیسے کا وجود نہیں ہوگا بلکہ اس کی جگہ توانائی کا سرٹیفکیٹ یا Energy Certificate ایک معاشی نظام کے طور پر استعمال ہوگا۔ جس میں کسی بھی چیز کو پیدا کرنے یا بنانے کیلئے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔یہ نظام قائم کرنے کیلئے یہ ضروری قراردیا گیا کہ عوامی نمائندوں کے جمہوری نظام کو ختم کردیا جائے۔ٹیکنوکریسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس نظام میں حکومت کرنے والا کوئی سیاست دان اور تاجر نہیں ہوگا بلکہ یہ کام سائنسدان، ڈاکٹرز اور انجینیئرز کریں گے۔ امریکا میں کساد بازاری کیخلاف آواز بلند کرنے والے ان ٹیکنو کریسی کے حامیوں کو گمراہ یا خام خیالی میں رہنے والے قراردے کر مسترد کردیا گیا تھا۔اس کے باوجود سائنسدانوں اور دانشوروں کے اس گروپ نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں جو بے مثال دنیا کا خواب سجایا تھا، اس میں اٹھائے گئے کئی سوالات آج بھی متعلقہ یا Relative ہیں۔اس تحریک پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے ارکان کی تعداد 5 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ان کے مطابق ترقی اور جدت نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری، ماحولیاتی انحطاط، زیادہ آبادی اور عدم مساوات جیسے سماجی مسائل پیدا کئے تھے، یہ بات آج بھی درست ثابت ہوتی ہے۔ اس تحریک کے بانیوں میں امریکی انجنیئر ہاورڈ سکاٹ Howard Scott اور امریکی جیالوجسٹ میرین کنگ ہوبرٹ Marion King Hubbert شامل تھے۔کرشماتی شخصیت کے مالک ہاورڈ سکاٹ کے مطابق اس نئی دنیا کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے طریقوں کے ساتھ چلانا ایک غلطی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت نے بہت سے نااہل افراد کو اقتدار تک پہنچا دیا، جنھوں نے غلط فیصلے کئے جو سماجی بربادی کا باعث بنے ہیں۔ ٹیکنوکریسی موومنٹ کے کارکن آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو فوجیوں کی طرح سیلوٹ بھی کرتے تھے۔ یہاں یہ بات واضح کردیں کہ اس تحریک کے رہنماؤں کے مطابق یہ مکمل طور پر غیرسیاسی تحریک تھی۔ اس تحریک کے مداحوں میں برطانوی سائنس فکشن مصنف ایچ جی ویلز Herbert George Wells بھی شامل تھے۔ اس تحریک کی ایک باقاعدہ علامت بھی تھی جسے ’موناد‘ کہا جاتا تھا۔ یہ تحریک امریکہ سے کینیڈا میں پھیلی تو پانچ سال تک کینیڈا میں اس تحریک کے قائد ڈاکٹر جوشوا ہالڈرمین Joshua Haldeman رہے تھے، جو مایوس ہوکر 1941 میں جنوبی افریقہ چلے گئے۔ مگر ان کا نواسا آج زمین پر نہیں بلکہ مریخ پر ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کا خواہشمند ہے۔ 1971 میں پیدا ہونے والے اس شخص کا نام ایلون مسک ہے۔جو امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا، خلائی کمپنی اسپیس ایکس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کے مالک ہیں۔ ایلون مسک نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا وہ مریخ پر نمائندہ نہیں بلکہ براہ راست جمہوریت ہوگی، اس میں لوگوں کو ان کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کے مطابق حکومت میں شامل کیا جائے گا اور لوگ امیدواروں کو نہیں بلکہ براہ راست کسی ایشو پر ووٹ ڈالیں گے۔اس سے کرپشن میں کمی آئے گی کیونکہ نمائندہ جمہوریت میں براہ راست جمہوریت سے زیادہ بدعنوانی ہے۔
دنیا کا یہ مطلق العنان خیال 1930 کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچا تاہم 1940 کی دہائی میں امریکی صدر روز ویلٹ کی جانب سے متعارف کرائی گئی ’نیو ڈیل‘ پالیسی کے ثمرات سامنے آنے لگے اور دوبارہ ملازمتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں تو ٹیکنوکریٹک تحریک کا ستارہ ڈگمگا گیا۔
دنیا میں کہاں کہاں ٹیکنوکریٹ حکومت ہے یا رہی؟
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت رہی بھی یا نہیں۔۔ آپ کو بتادیں کہ سوویت یونین کی حکومتوں کو ٹیکنو کریٹ کی حکومت مانا جاتا تھا کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی جیسے پولٹی بیورو Politburo کہا جاتا تھا، 1986 میں اس کے تقریباً 100 فیصد ارکان ہی ٹیکنوکریٹ تھے، حتیٰ کہ اس میں صرف انجینئرز کی تعداد 86 فیصد تھی۔ چین کی حکمران جماعت چائنز کمیونسٹ پارٹی میں بھی عام طور پر اکثریت انجینئرز کی ہی ہوتی ہے۔ چین میں ہر 10 لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں میں کئے گئے سروے کے مطابق مقامی حکومتوں میں شامل افراد میں سے 80 فیصد کے پاس ٹیکنیکل ایجوکیشن ہے۔ ماہرین کے مطابق چین کے ترقی کرنے کی بڑی وجہ یہی تکنیکی ماہرین ہیں، جن کی بدولت چین تھری گورجیئس ڈیم، ہائی سپیڈ ریلوے سسٹم اور نیشنل ٹرنک ہائی وے سسٹم جیسے میگا منصوبے بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔دوسری جانب معاشی ماہرین یا فنانشل ٹیکنوکریٹس نے بھی چین کو دنیا کی معاشی سپر پاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ تو بات تھی کمیونسٹ ملکوں کی۔ اگر ہم یورپی جمہوریتوں کا بھی جائزہ لے لیں تو اٹلی میں کئی بار ٹیکنو کریٹس کی حکومتیں بنائی گئی ہیں، چند سال پہلے 2011 میں وزیراعظم بننے والے ماریو مونٹی Mario Monti کی کابینہ میں بھی متعدد غیرمنتخب ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2011 میں یونان کی حکومت کی باگ ڈور ایک معاشی ماہر لوکاس پاپا ڈیموس Lucas Papademos کے سپرد کی گئی، یہی نہیں چیک ری پبلک میں 2009 میں عبوری حکومت کی سربراہی ماہر معاشیات جان فشر Jan Fischer کو سونپی گئی۔ بلغاریہ میں 2013 میں پلے مین ویسیلیف Plamen Vasilev وزیراعظم بنے جو کسی پارٹی کے رکن تھے اور نہ ہی وہ کسی علاقے سے منتخب ہوکر آئے تھے، پھر بھی اسمبلی نے انہیں وزیراعظم منتخب کرلیا۔۔ حیران کن طور پر 2013 میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ یورپی یونین کے 27 میں سے 24 ملکوں کے سربراہ حکومت کسی نہ کسی حوالے سے ٹیکنو کریٹ ہی تھے۔ دوسری جانب 2013 میں افریقی ملک تیونس میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے بھی ٹیکنو کریٹس کی عبوری حکومت بنائی گئی تھی، یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ حالیہ برسوں میں سنگاپور کے نظامِ حکومت کو ٹیکنوکریٹ نظام کی بہترین مثال قرار دیا جاتا ہے، جہاں حکومت سیاست دانوں اور ٹیکنو کریٹس کے بہترین امتزاج سے بنائی جاتی ہے۔ اگر ہم پاکستان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو دیکھیں تو یہاں 1991 سے 2008 تک ٹیکنو کریٹس کی نگران حکومتیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن حسینہ واجد نے آئین میں ترمیم کرکے نگران حکومت کے قیام کا قصہ ہی تمام کردیا ہے، جس سے بنگلہ دیش میں فی الحال ٹیکنو کریٹ حکومت کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں کیا کبھی نگران حکومت بنی ہے؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت بنی ہے۔ تو اس کا جواب ہے، بالکل بنی ہے۔۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنائی تھی، یعنی یہ کام 1973 کے آئین سے پہلے ہوا تھا۔۔ ایوب خان 1958 سے 1969 تک صدرِ پاکستان رہے۔ ان کے دور میں نیا آئین بنا اور وفاقی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نے لے لی۔ وہ پہلی بار 1960 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر بنے اور دوسری بار وہ 1965 میں باقاعده الیکشن لڑ کر صدر منتخب ہوئے۔ ان کی پہلی 12 رکنی کابینہ میں چار جرنیل اور آٹھ دیگر افراد شامل تھے، ایوب خان خود ہی وزیرِ دفاع بھی تھے۔ یہ پوری کی پوری کابینہ غیرمنتخب ارکان پر مشتمل تھی۔ باقی گیارہ افراد میں جنرل اعظم خان، جنرل واجد برکی اور جنرل کے ایم شیخ شامل تھے۔ان کے علاوہ ماہر معشیت محمد شعیب، سابق جج اور ماہرِ تعلیم مولوی محمد ابراہیم، صنعت کار ابوالقاسم خان اور بیورو کریٹس ایف ایم خان اور حبیب الرحمان ان کی کابینہ کا حصہ تھے۔ حفیظ الرحمان، منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو بھی پہلی کابینہ میں شامل تھے۔ ایوب خان کی دوسری کابینہ میں شامل رہنے والے 18 ارکان میں ناصرف پہلی کابینہ سے لوگ شامل تھے بلکہ اس میں جن نئے ارکان کا اضافہ ہوا، ان میں سے عبدالصبور خان، خواجہ شہاب الدین اور غلام فاروق ٹیکنو کریٹس ہی تھے۔ دوسری جانب ایوب خان کے ایڈوائزری بورڈ میں شامل معروف صحافی الطاف حسین، قاضی انوارالحق، شمس الضحیٰ، چودھری اکبر علی خان اور شریف الدین پیرزادہ کا بھی کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدر ایوب خان کی کابینہ میں شامل رہنے والے 30 ارکان میں سے 15 پروفیشنلز، 8 بیوروکریٹس، 4 فوجی آفیسرز، دو جاگیر دار اور ایک صنعتکار تھے۔سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی بے چینی ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی، بلکہ یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے 22 خاندانوں کو پاکستان پر مسلط کردیا۔ دوسری جانب اکثر معاشی اور دفاعی ماہرین ایوب خان کے دور کو پاکستان کا سنہری دور قرار دیتے ہیں ان کے مطابق یہ وہی دور تھا جس میں توانائی کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی گئی، منگلا ڈیم سمیت بڑے بڑے ڈیم بنے، ایٹمی بجلی گھر تعمیر کئے گئے۔دفاعی صلاحیتوں کو بڑھایا گیا۔ نیوی کو جدید جنگی حکمت عملی کے تحت آبدوزوں اور دیگر ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔خلائی پروگرام کی ابتدا کرتے ہوئے سپارکو جیسا ادارہ قائم ہوا- یہی نہیں 1960 سے 1968 تک ملک کی سالانہ اوسط شرح نمو 7 فیصد کے قریب قریب ہی رہی۔
دوسری جانب 1973 کے آئین کے تحت پاکستان میں اب تک جتنی بھی نگران حکومتیں بنی ہیں۔ان میں سیاست دان برائے نام ہی تھے اور زیادہ تر ٹیکنو کریٹس کو ہی اس میں شامل کیا گیا۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ آئین پاکستان میں کسی قسم کی ٹیکنو کریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم صرف پانچ معاونِ خصوصی رکھ سکتے ہیں، اس کے علاوہ انہیں کابینہ کے تمام ارکان پارلیمنٹ سے لینا ہوتے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم اپنی مرضی سے جتنے چاہے مشیر رکھ سکتے ہیں-ان مشیروں کو مشاورت کی اجازت تو ہوتی ہے لیکن وہ فیصلہ سازی میں شامل ہونے کا اختیار نہیں رکھتے، اس لئے وہ کابینہ کے اجلاس میں بھی نہیں بیٹھ سکتے۔ ٹینکو کریٹ حکومت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ حکومت اپنے اپنے شعبوں میں اہل افراد کو اکٹھا کرکے بنائی جاتی ہے، جس سے گڈ گورننس کا خواب حقیقت بن سکتا ہے اور پاکستان جیسا ملک جہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں وہ گڈ گورننس کی بدولت دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوسکتا ہے۔کیا پاکستان میں ٹیکنو کریٹ کا نظام کامیاب ہوسکتا ہے